ایلڈرلی لیڈی (عابدہ تقی)
”بی بی جی ہمارے زمانے میں تو شادی بیاہ پر سادہ سا لال جوڑا بنتا تھا پر اب تو زمانہ ہی بدل گیا ہے“۔ ماسی کبریٰ اسے جوس کا گلاس پکڑاتے ہوئے کہہ رہی تھیں اور وہ انچی ٹیپ ہاتھ میں پکڑے کسی برائیڈل ڈریس کے بلاﺅز کا ناپ چیک کر رہی تھی جو اس کی ٹیم کے ممبرز ایک Dummyکو پہنا چکے تھے ۔ ”پریشر بہت زیادہ ہے کام کا اور آپ لوگ سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ پلیز ڈبل یور اسپیڈ آف ورک مجھے جنید جمال صاحب کو کل یہ سب ڈریسز نمائش کے لئے تیار کر کے دینے ہیں“ وہ اپنی اسٹائلنگ ٹیم کے ساتھ سر کھپا رہی تھی۔
”بی بی جی یہ اتنے سارے لباس کس کے لئے بنا رہی ہیں جی“ ماسی پھر شروع ہو گئیں۔
”نمائش کے لئے بنا رہی ہوں آپ پلیز ماسی گلاس وہاں رکھ دیں“۔ فون کی گھنٹی مسلسل بجے جا رہی تھی جسے اس نے مشکل سے اٹھایا حالانکہ اتنی بھی فرصت نہیں تھی اس کے پاس لیکن دوسری طرف جنید جمال کی آواز جادو جگا رہی تھی۔
”او یس ڈونٹ وری ’جے جے ‘، وی ول بی آن ٹائم۔ آپ شام کو یہاں کا ایک چکر لگا لیں اور ماڈلز کا کیا بنا؟۔ ریہرسل کا کام کیسا جا رہا ہے؟ اور ہاں یہ برائیڈل ڈریس جو میں بنا رہی ہوں اس کے لئے کس کو سیلیکٹ کیا ہے؟۔ کیا ہو رہا ہے جسٹ بریف می؟۔ مارے پریشانی کے اس کی آواز بھی تیز تر ہوتی جا رہی تھی۔
”ریلیکس دس از مائی ھیڈک اور اسے سبرینا ملک پریزنٹ کرے گی۔ شی از آن کیٹ واک ان ریہرسل سیشن جسٹ ناﺅ“ جنید جمال نے جواب دیا تو اس کی پیشانی پر اور بل پڑ گئے۔
”میں تو فرسٹ ٹائم اس کا نام سن رہی ہوں کون ہیں یہ شخصیت؟ اس کے سوال پر جنید جمال کے قہقہے نے اس کا موڈ بھی لائیٹ کر دیا۔
”شی از ا ے چارمنگ لیڈی “ اور پھر تھوڑا وقفہ دیکر Less than you کا اضافہ کر دیا۔
”میں اس وقت شو کی کامیابی میں انٹرسٹد ہوں ورنہ تمھاری ماڈلز کے چارم سے مجھے کوئی انٹرسٹ نہیں“۔ اس کی بات پر دوسری طرف سے بھی کچھ کہا گیا اور پھر فون بند ہو گیا۔
”بی بی جی ہماری بستی میں بھی میری رشتے کی بہن کی ایک لڑکی بھاگ بھری کی شادی ہے جی تو میں نے ان کو بتایا میری بی بی بہت قیمتی جوڑے تیار کرتی ہیں۔ وہ پوچھ رہی تھیں کہ آپ سے دلہن کا جوڑا بنوانے میں کتنے پیسے لگ جائیں گے“۔ ماسی نے للچائی ہوئی نظروں سے ادھ سلے اور خوبصورت کامدار برائیڈل ڈریس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”افوہ ماسی! بھاگ بھری اسے افورڈ نہیں کر سکتی یہ لاکھوں کا ہے لاکھوں کا۔ میں بستی والوں کے لئے نہیں بناتی ہوں یہ جوڑے۔ یہ نمائش کے لئے ہیں باہر کے ملکوں میں جاتے ہیں۔ “ اس نے جوس کا گلاس لوٹاتے ہوئے کہا۔
” او۔کے ٹیم! یہ بلاﺅز ان ساری Dummies پرفکس کریں اور ساڑھیاں پہناتے ہوئے فرنٹ فال کا اور پلو کا بہت خیال رکھیں۔
”نعیم صاحب مجھے بتائیں ٹرانسپورٹرز آئے کہ نہیں یہ ساری ڈمیز ہال میں پہنچانی ہیں کب ہو گا یہ سب۔ اورماڈلز کی میک اپ ٹیم کو فون کرو لیزا پلیز ہری اپ“۔ میک شیور آف ایوری تھنگ ٹو بی پرفیکٹ اینڈ ان ٹائم“ وہ پھر چلانے لگ گئی۔
”ہاں بی بی بہت خوش قسمت ہوتی ہونگی جو یہ جوڑے پہنتی ہونگی ہیں ناں۔ ہائے ہائے غریبی“ ماسی نے آہ بھری اور گلاس اٹھا کر چل دیں۔ ٭٭٭
ڈریسز اینڈ ڈریسز کے نام سے شروع کی گئی اس کی بوتیک اب باقاعدہ ایک انڈسٹری بن چکی تھی۔ اب تو اس کا نام بھی شارٹ کر کے ”ڈی اینڈ ڈی“ رکھ لیا گیا تھا اور رومانہ مظفر ہی اس کی پہچان تھی۔ کل ” ڈی این ڈی“ کا گرینڈفنکشن تھا اور جنید جمال کے لئے بہت ہی روشن دن۔ کیونکہ جنید جمال کو مینیجنگ ڈائریکٹر کا عہدہ تو پہلے ہی دیا جا چکا تھا اور جلد ہی وہ مینیجنگ پارٹنر بھی بننے والا تھا رومانہ کی مہربانیوں سے۔ بلا شبہ رومانہ نے اس ڈریسز بزنس کو ایک بین الاقوامی سطح تک لانے میں بہت کام کیا تھا اور یہ بات بہت قابلِ ستائش تھی کہ اس نے یہ سب کام اکیلے ہی کر لیا تھا لیکن جب سے جنید جمال نے اسے جوائین کیا تھا اس کے بزنس کو کافی وسعت ملی تھی۔ اور آجکا یہ فنکشن دونوں کے لئے بڑی اہمیت رکھتا تھا۔ رومانہ نے یہ فنکشن ایک بہت بڑے فائیو سٹار ہوٹل میں ارینج کیا تھا جس میں ڈریسز کی نمائش، جیولری کی نمائش اور میوزیکل شو بھی شامل تھا۔ جنید جمال اور رومانہ دونوں ساتھ ساتھ کھڑے مبارکبادیں وصول کر رہے تھے۔ شہر بھر کی ایلیٹ کلاس موجود تھی اور رومانہ آج جتنی توجہ سے خود تیار ہوئی تھی وہ ماڈلز سے بھی زیادہ قیامت ڈھا رہی تھی خاص کر جنید جمال کی ساری توجہ اس پر مرکوزتھی۔ جنید جمال کا کمال تھا کہ اس نے ”ڈی این ڈی“ کی اونر رومانہ مظفر کی نگاہوں میں ایک قابلِ ذکر جگہ بنا لی تھی ۔
اس کی کام کی لگن اور محنت نے رومانہ کو کافی متاثر کر لیا تھا۔ صرف محنت نے نہیں، اس کی بولتی آنکھوں کے پیام نے، اس کے خوبصورت جملوں اور اس کی شخصیت کے چارم نے بھی رومانہ کو ہر طرف سے گھیر لیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے سے اتنے نزدیک آ چکے تھے کہ ہر طرف یہ تاثر عام تھا کہ دونوں کی یہ انڈرسٹینڈنگ کسی رشتے کی صورت میں انجام پذیر ہو گی۔ یہ بات دونوں کے سرکلز میں بھی محسوس ہونے لگی تھی لیکن دونوں طرف Who cares والا ایٹی چیوڈ جاری تھا۔ پراجیکٹس، پیرون ملک نمائشیں اور ایکسپورٹ یہ سب اتنا مصروف کن اور تھکا دینے والا کام بھی ان کے جذبوں کی راہ میں حائل نہیں تھا۔ لیکن ایک بات دونوں کے درمیان کسی وقت بھی فاصلوں کی خلیج حائل کر سکتی تھی جذبوں کی گہرائی کے باوجود بھی اور رومانہ کو اس بات کا احساس تھا۔
٭٭٭
”تو سب سے پہلے آپ کو یہ خیال کیسے آیا کہ آپ کو ڈریس ڈیزائننگ کا بزنس کرنا چاہئے“ رومانہ مظفر سے یہ سوال پرائیویٹ چینل کے ایک مشہور پروگرام کے لئے کیاجا رہا تھا اور میزبان کے اس سوال پر بہت سارے منظر ان کے ذہن میں اس پل کے ہزارویں حصے میں کسی فلم کی طرح گھوم گئے۔
اس کے کالج کی فئیر ویل پارٹی میں جانے کے لئے اس کے پاس کوئی نیا جوڑا تک نہیں تھا نہ ہی اس کی بیوہ ماں میں اتنی سکت تھی کہ وہ اسکول سے ملنے والی تنخواہ سے اس کے لئے ایک نیا ڈریس بنا سکتیں جہاں اس کے اور چھوٹی بہنوں اور بھائیوں کی تعلیم بھی ان کی تنخواہ ہی کھینچ رہی تھی۔ اور رومانہ کا گروپ
سارے کا سار ا بہت امیر گھرانوں کی بگڑی ہوئی رئیس زادیوں کا تھا جن کے لئے مہنگے سے مہنگے ڈریسسز کوئی مسئلہ ہی نہیں تھے۔ کالج میں اگرچہ یونیفارم تھا لیکن اس میں بھی صرف رومانہ ہی ذرا گھٹیا قسم کے کپڑے کے ایک ہی یونیفارم میں سارا سال گذار دیتی۔ تو اس مسئلے کا حل اس کی ایک امیر اور دیالو کلاس فیلو نے کر دیا اسے اپنا ایک پہنا ہوا جوڑا دے کر جو اس پارٹی والے دن جچا بھی خوب تھا اور تھوڑے سے میک اپ اور اسی سے مانگی ہوئی جیولری نے اسے بہت حسین اور جاذب نظر بنا دیا تھا۔ اور بعد میں جب وہ ماریہ کو واپس کرنے گئی تو اس نے بڑی نخوت سے کہا۔
”اوہ نیور مائنڈ رکھ لو رومانہ میں ایک بار کسی کو دی ہوئی چیز واپس نہیں لیتی اور رومانہ کو اگرچہ بہت برا لگا لیکن پھر بھی وہ اسے واپس لے آئی۔
اس ایک ڈریس کی بناوٹ پر غور کرتے کرتے اس نے ایک مرتبہ ایک سستے سے کپڑے سے ایک اسٹائلش سوٹ خود سلائی کر لیا اور وہ اس کی امیر سہیلیوں میں پاپولر بھی ہو گیا تو پھر وہ اس سے یہ کام کروانے لگ گئیں۔
”پیسے نہیں ہیں بیچاری کے پاس لیکن آئیڈیاز بڑے زبردست ہیں“ اس کی دوستوں کے تبصرے اس تک پہنچتے رہتے تھے اور گریجویشن کے لئے اس نے فیس اور کتابوں کا خرچ بھی یونہی نکالا۔ اپنی سلائی مشین پر وقت اور دماغ استعمال کرتے کرتے۔ کبھی کبھی وقت اور قسمت خود ہی آگے بڑھنے کا راستہ بنا دیتے ہیں۔ اس کی کلاس فیلو لیزا کی مما نے اپوا کے مینا بازار میں ڈریس کی نمائش کروانی تھی اور ان کے ساتھ بھی سارا کام رومانہ نے کروایا تھا۔ یہیں سے اپوا اور پھر اور دوسری خواتین کی تنظیموں نے اس کی سروسز لینی شروع کر دیں۔ پھر اس نے اپنا چھوٹا سا ایک آفس بیگم روﺅف کے ساتھ مل کر بنایا۔ جب آردڑز زیادہ آنے لگ گئے تو منافع کی تقسیم پر ان کی اور رومانہ کی جھڑپ ہو گئی۔ اور یوں رومانہ نے اپنا ایک الگ سیٹ اپ بنا لیا۔
شروع شروع میں تو اسے انویسٹمنٹ کے لئے کافی کوششیں کرنی پڑیں کیونکہ مارکیٹ میں بوتیکس اور ڈریسز سینٹرز کی کمی نہیں تھی تو ایسے میں بزنس لینا اور ایک مقام بنانا بھی خاصا جان جوکھوں کا کام تھا لیکن پھر ایک اینگلو امریکن خاتون وینڈی نورمین کا ساتھ مل جانے سے اسے باہر کے ملکوں میں اپنا کام بھجوانے کا موقع مل گیا اور یوں نیشنل اور انٹرنیشنل لیول پر بے مثال ڈریس ڈیزائننگ کی روایت ڈالنے والی وہ ایک واحد خاتون تھی جس نے دس پندرہ سال لگا کر ایک نمایاں مقام بنا لیا تھا۔ اب فلم ہو یا ڈرامہ، یا شادی کے فنکشنز یا بیرون ملک نمائش رومانہ کی D 'N D کا نام ہر طرف گونج رہا تھا۔ اور جواب میں اس نے اصل حقیقت کو اپنے تک ہی رکھا۔
”بس یونہی میں شروع سے کچھ الگ سا کام کرنا چاہتی تھی you know something creative تو میں نے ڈریس ڈیزائنگ کو ٹرائی کیا۔ آئیڈیا اور کام ھٹ ہو گیا اور اب آپ کے سامنے ہے سب کچھ“۔ اس نے ادا سے مسکرا کر کہا۔
”میڈم اکیلے اتنا کچھ کیا آپ نے یا آپ کے خیال سے کسی اور کا بھی شیئر ہے اس سارے پراجیکٹ پر آپ کا ساتھ دینے میں؟ اس سوال پر اس کی نگاہیں بے اختیار جنید جمال کی طرف اٹھیں جو دور مہمانوں کے ایک ٹولے میں گھرا مگر اسی کی طرف بہت دلچسپی سے دیکھ رہا تھا اور رومانہ نے دھڑکنوں میں عجیب سی ہلچل محسوس کی ۔ ”تمھارے چہرے پر نہیں لکھے ہیں سالوں کے وہ عدد جنہیں تم اپنی بڑائی میں شمار کرتی ہو رومانہ۔ پھر اتنا concious کیوں رہتی ہو ہر وقت اس ایک بات سے ۔ جب مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تو کسی کو نہیں پڑنا چاہئے ، سمجھیں تم ‘ وہ اسے ڈانٹ دیا کرتا تھا جب بھی وہ اپنے اور اس کے درمیان اس فرق کو باور کرواتی لیکن اس ڈانٹ میں ایک یقین دہانی، ایک re-assurance ہوتی اور اسے جذبوں کی سچائی کا یقین آ جاتا۔ اپنے محبوب کی بات کا اعتبار نہ کرنے والی تو کوئی عورت پیدا ہی نہیں ہوئی اس روئے زمین پر‘۔اور اس نے انٹرویو لینے والی ٹیم کو کوئی مناسب جواب دے کر مطمئن کر دیا۔ اور پھر جنیدجمال کا انٹرویو شروع ہو گیا اور وہ مہمانوں میں مصروف ہو گئی۔
٭٭٭
”روما پلیز میٹ سبرینا ملک آج کے شو کی کوئین“ ، رومانہ کو بہت سے فارن ایکسپورٹرز نے گھیر رکھا تھا جب جنید اس سے سبرینا کو ملوانے کے لئے لایا۔
”پلیزڈ ٹو میٹ یو سبرینا اینڈ ویل ڈن۔ یو ور ریئلی ونڈرفل“ اس نے سبرینا سے ہاتھ ملایا۔
”سیم ھئیر“ یہ سب آپ کی اور جنید صاحب کی کوششوں سے ممکن ہوا ہے “ سبرینا نے رومانہ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ اس نے کچھ سن تو رکھا تھا جنید کے اور اس کے دوستانہ تعلق کا اور اس جائزے میں تھوڑا حسد بھی شامل تھا۔’ ساری دنیا نے آج مجھے یعنی سبرینا ملک کو اس کی خوبصورتی پر کامپلیمنٹس دئے تھے اور یہ رومانہ مظفر ، اونہہ یہ جنید کو کیا سوجھی اس خاتون پر مر مٹنے کی؟ سبرینا سوچوں کو چھپائے ہوئے رومانہ مظفر کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ وائلٹ کلر کی انڈین سلک کی ساڑھی اور میچنگ جیولری میں رومانہ میک اپ کے ساتھ اچھی لگ رہی تھی ’ٹھیک ہی ہے مگر جنید کے ساتھ جچتی نہیں عمر میں بڑی لگتی ہے۔ سبرینا نے اپنے سارے تاثرات اپنی مسکراہٹ میں چھپاتے ہوئے رومانہ کی بہت تعریف کرنی شروع کر دی۔
”You are such an intellligent lady and you have a stamina for this kind of demanding business “ جنید بتا رہے تھے کہ آپ کے پاس ان لمیٹڈ آئیڈیاز ہیں ڈریس ڈیزائننگ کے لئے“۔ اس نے رومانہ کے قریب ہوتے ہوئے کہا۔
”تھینک یو ! اب تم جیسا ٹیلنٹ بھی ساتھ ہے تو میں اسے ٹیم ورک ہی کہوں گی“۔ رومانہ کھل کر مسکرا دی اور پھر اسے شائد کسی اور طرف سے آواز آئی تو وہ ایکسیوز می کہتی ہوئی ادھر چل دی جنید جمال کے ساتھ۔
”اس couple کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے سبرینا“ عمیرہ بھی اب کیٹ واک کی تھکن، گوسپ سے اتارنے کوک کا گلاس ہاتھ میں لئے وہیں چلی آئی تھی۔
”Odd Couple“ سبرینا نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
”سنا ہے جنید اور وہ شادی کرنے والے ہیں۔ جے جے کو دیکھا ہے کیسے اسے فلیٹر کرتا ہے“۔ ثانیہ کو بھی اپنی بھڑاس نکالنا تھی رومانہ پر۔
”اماں لگتی ہے اس کی۔ ادائیں دیکھو ذرا۔ میں نے سنا ہے کہ اس نے اپنی wrinklesچھپانے کے لئے فیشل کاسمیٹک سرجری بھی کروائی ہے۔ پوئر اولڈ گرل“۔ کیا کیا کرنا پڑ رہا ہے جنید جمال کو ہک کرنے کے لئے “۔یہ صائمہ تھی۔
”وہ کچھ کرے یا نہ کرے کوئی کیوپڈ کام کر چکا ہے۔ جنید کی باتوں سے لگتا ہے کہ وہ اس میں کچھ زیادہ ہی انٹرسٹد ہے۔ میں نے مسز خلیل کو کہتے سنا ہے کہ دونوں شادی کر لیں گے“۔
”غلط سنا ہے اور اگر صیح بھی سنا ہے تو اب ایسا ہو گا نہیں“ سبیرنا نے اپنے لانبے بالوں کی لٹ کو اسٹائل سے پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا۔
”شرط لگاتی ہو“ ۔ عفت نے ہاتھ آگے بڑھایا۔
”I bet over it“ سبرینا کے لہجے میں کچھ تھا جسے ماڈلز کے سارے گروپ نے محسوس کر لیا تھا ۔ کچھ تو تھا
”جیلسی ہے“ عمیرہ نے چھیڑا
”نہیں یار He is my obsession اور یہ رومانہ مظفر، نو پرابلم فار می‘ اس نے کہا تو سب زور سے ہنس دیں۔
” او یو نو ہی از اے سوئیٹ ہارٹ اور اسے پانے کے لئے میں کیا میں اتنا نہیں کر سکتی؟“۔ وہ بن بن کے بات کر رہی تھی۔
”پرفیکٹلی یار ۔ یو آر مائینڈ بلوئینگ آل ریڈی“ اس کے پرفیکٹ فگر پرماڈرن ڈریس سے جھانکتے گورے بدن کو دیکھتے ہوئے سارے گروپ کو یقین آ گیا تھا۔ ”شی از گوئینگ ٹو وِن جے جے“۔ لیکن کیا ایسا واقعی ہو سکے گا سب نے گردنیں ادھر موڑ کر دیکھا جہاں رومانہ مظفر کھڑی مہمانوں سے باتیں کر رہی تھی ۔ سوہنی کی طرح اس بات سے بے خبر کہ کچے گھڑے کی مٹی پانی میں گھلنا شروع ہو چکی تھی ۔
٭٭٭
”سارے رسالے اور سارے اخبار دیکھنے آئی ہوں میں کل کے فنکشن کےIt was a success “ لیزا کل کے فنکشن کی خوشی منانے چلی آئی تھی اور بہت ایکسائٹڈ تھی۔
”ارے ہاں اس فنکشن کا کوریج تو زبردست ہے“ رومانہ مارننگ نیوز میں اپنی تقریب کا کوریج کم دیکھ رہی تھی اور یہ زیادہ سوچ رہی تھی کہ وہ جنید جمال کے ساتھ تصویر میں کتنی شاندار لگ رہی تھی اور اس کا وہاں سے نظریں ہٹانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔
”جنید نے کچھ کہا تم سے ،مطلب شادی کے پروپوزل کے بارے میں “ لیزا نے بھی اخبار برابر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
” سنو لیزا، اگر عورت عمر میں مرد سے کچھ سال بڑی ہو تویہ جو کچھ سالوں کا فرق ہے وہ ان کی محبت کاکوئی sad event ہی بن جاتا ہے کہیں نہ کہیں آ کر“ وہ چائے بناتے ہوئے علیزہ اپنی واحد دوست سے اپنے خدشات شئیر کر رہی تھی۔
”او کم آن رومانہ کس قسم کی باتیں لے بیٹھی ہو تم ۔ اگر مرد عمر میں بڑا ہو ا عورت سے اور محبت سچی ہو تو کوئی فرق پڑتا ہے ان کے آپس کے ریلیشن شپ میں؟۔ لیزا نے الٹا اسی پر سوال کر دیا۔
”عورت کو اس لئے فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس کی محبت کی بنیادیں جذبوں کی گہرائی پر ہوتی ہیںلیکن مرد کے ہاں کہیں نہ کہیں کوئی extreme decision کرنے کی گنجائش نکل آتی ہے۔ “
”لُک ڈئیر روما میں کافی ایگزامپلس کوٹ کر سکتی ہوں اس پوائینٹ کی فیور میں جہاں عمروں کے گیپ سے بھی کامیاب شادیاں ہوئی ہیں اسی دنیا میں اسی گلوب پر“ لیزا خاصی جذباتی ہو رہی تھی۔
”اچھا ! آئی وِل لو ٹُو ھیئر آل آف دیم، وَن بائی وَن“ ۔ رومانہ کی دلچسپی بڑھ رہی تھی یا پھر وہ اپنے دل میں بنے ہوئے محبت کے گھروندے کو کسی تباہ کُن لہرسے بچانے کی تیاری کرنا چاہ رہی تھی۔
”آئی ایم ناٹ اے ویری ریلیجس پرسن لیکن پھر بھی اتنا جانتی ہوں کہ ہمارے دِین میں عمروں کے فرق سے شادیوں کی مثالیں ہیں جہاں خواتین کے چند سال بڑے ہونے نے بھی رشتوں کے تقدس کی مثال قائم کی“۔
”وہ سب مثالیںہماری سوسائیٹی میں عورت کو سپورٹ دینے کے لئے ناکافی ہیں ،یو نو ھاﺅ آر سوسائیٹی ازلایک؟“ رومانہ کا رویہ منفی ہو رہا تھا آج۔
”چلو ماڈرن امریکن بھی کئی مثالیں ہیں کہو تو دوں اب دیکھو ناں وہ پاپ سنگر ہے ناں مائیکل جیکسن اور ایلزبتھ ٹیلر“ لیزا بات پوری کرنے سے پہلے ہی ہنس پڑی۔
”شٹ اپ لیزا You are being nasty nowوہ بھی کھلکھلا کر ہنس دی تو اس ہنسی میں اس کی پریشانی بھی کہیں تحلیل ہو گئی۔ اسے ماضی کی سب باتیں یاد آنے لگ گئیں ۔ ’مجھے زندگی کی ساتھی ایک سمجھدار عورت چاہیئے تمھاری طرح کی ‘ یہ بھی وہ بارہا کہہ چکا تھا۔
’جتنے ہمارے خیالات ملتے ہیں رومانہ ، ہمیں تو بہت پہلے ہی شادی کر لینا چاہئے تھی خیر اٹ از نیور ٹُو لیٹ ‘ اسے یاد آیا ایک بزنس میٹنگ سے آتے ہوئے وہ کتنا جذباتی ہو رہا تھا۔ اور جانے کتنے خوبصورت لمحے ایک ایک کر کے رنگوں کی دنیا آنکھوں کے سانے بسانے لگ گئے۔ خاص طور سے اُسے کیفے کا وہ منظر یاد آ گیا جہاں جنید جمال نے اس کے اور اپنے ویڈنگ ڈریس کی بات کی تھی۔
”اپنی شادی پہ کیسا ڈریس بناﺅ گی مائی ڈئیر لیڈی روما“ وہ دونوں ایک کیفے میں بیٹھے تھے اور جنید اس کی طرف جھکا ہوا اسے لچسپی سے دیکھ کر پوچھ رہا تھا۔
”مم۔۔میں نے سوچا نہیں کبھی“۔ ایک دم چہرہ بلش کرنے لگ گیا تھا۔
”کم آن، ابھی نہیں سوچو گی تو پھر کب سوچو گی میم“ اس نے تھوڑا ادب سے سر جھکانے کی ایکٹنگ کی تو وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔
”کسی نے مجھے پروپوز ہی نہیں کیا ابھی تک“۔ وہ اپنی خالی انگلیوں کی طرف دیکھنے لگ گئی جس میں ایک انگوٹھی کی کمی تھی۔
”آپ کس سے چاہتی ہیں کہ وہ آپ کو پروپوز کرے “؟ سوال بے حد ڈائریکٹ تھا۔
”بس کوئی ایسا کہ جو میرے ساتھ دور تک چلنے کی سکت رکھتا ہو Someone caring and sharing“ وہ بات کہتے کہتے رکی۔’کبھی سوچا نہیں تھا ایسا پہلے وہ تو کام کرتے کرتے ایک مشین بن گئی تھی اور اب اس ورکنگ روبوٹ کو دوبارہ عورت کا روپ دھارنے میں کتنا مزہ آ رہا تھا۔
”میرے جیسا چلے گا؟ جنید نے ٹیبل پر پڑے گلدان سے ایک پھول کھینچ کر اسے پیش کرتے ہوئے کہا۔
”مطلب؟“ وہ جیسے انجان بن گئی ایکدم۔
”مطلب کہ میرے جیسا ڈیم اسمارٹ، ہینڈسم، گڈلکنگ، کئیرنگ اینڈ شئیرنگ اینڈ بلا۔بلا۔۔۔بلا۔۔۔“ وہ بات ختم کر کے ہنس دیا تو روما کو لگا کہ ساری فضا مسکرا اٹھی ہو۔ دل اس زور سے دھڑکا کہ اسے گہری گہری سانسیں لینا پڑیں، دور کہیں شہنائی گونجتی ہوئی سنائی دینے لگ گئی۔ اوہ اس نے پہلے کب سوچا تھا یہ لمحہ بھی آئے گا زندگی میں۔
”چاہے وہ مجھ سے عمر میں کچھ سال چھوٹا ہو پھر ؟ رومانہ نے سوال indirect کر دیا۔
”اور اگر اس کے چند سال چھوٹے ہونے کے باوجود بھی اس کے جذبوں کا وزن زیادہ ہو تو پھر؟ خیر چھوڑو اس بے معنی بات کو۔ہاں تو پھر کیسا ڈریس ہونا چاہئے آپ کی ویڈنگ کا“ اس نے پھر سوال اس کی طرف اچھالا۔
”سوچوں گی“۔ کئی اچھے اچھے برائڈل ڈریسز اس کی آنکھوں کے سامنے لہرانے لگ گئے جو اس نے تیار کئے تھے ساتھ ساتھ ان دلہنوں کے چمکتے ہوئے چہرے بھی جنہوں نے وہ برائڈل ڈریسزپہنے تھے۔
”اور میرا ڈریس ؟ اس پر بھی تم ہی کام کر لینا ویسے بھی میں تو پراجیکٹ کو جبھی ہینڈل کرتا ہوں جب وہ پرفیکشن کے ساتھ سامنے ہو“۔ اس
نے رومانہ کے کانوں کے جھمکے کو انگلی سے چھیڑ دیا۔ اور اس ایک جیسچر نے رومانہ کی دھڑکنوں کے تار چھیڑ دئے۔
”Falling in love with a boy like you is easy, so easy “ سی۔ ڈی پلئر پر ٹینا چارلس اپنے مخصوص اسٹائل سے گا رہی تھی ا ور وہ اپنے بستر پر نیم دراز اس گانے کے میوزک کے ساتھ ساتھ اپنے جھمکے کو بار بار لہراتی رہی تھی ایک نشیلی مسکراہٹ کے ساتھ۔
اور اب لیزا کی بات سے اسے سب یاد آ گیا تھا۔ وہ آپ ہی آپ مسکراتی چلی گئی۔
لیکن اب تو کافی عرصہ سے جنید نے اس ٹاپک پر کوئی بات بھی نہیں کی تھی۔ بلکہ ان کی ملاقاتوں میں بھی کافی طویل وقفے آنے لگ گئے تھے۔ زیادہ تر فون پہ بات ہوتی تھی اور کبھی کبھی بزنس لائیک فضا میں میٹنگ۔ جانے کیا ہو گیا تھا وہ مصروف رہنے لگ گیا تھا مگر کہاں؟۔ میں نے پتہ کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ مگر کیوں۔ میں ججھکنے لگ گئی ہوں یا پھر شائد وہ مجھے اوائڈ کر رہا ہے اتنا کھلم کھلا اظہار کرنے کے بعد۔ ’ تو کیا ہوا میں اسے خود یاد دلا دونگی کسی طریقے سے‘ وہ مسکرائی۔ پھر میں اسے بتاﺅں گی کہ اپنا برایئڈل ڈریس تیار کر چکی ہوں میں جو سب سے اسٹائلش ہے اور جنید وہ تو ہے ہی پرنس اس کے لئے بھی کوئی شاندار ڈریس ہونا چاہئے۔ وہ سوچوں میں بہت دور جا چکی تھی۔
”او۔کے ڈئیر اب کچھ کھانے کو دو میں نے ناشتہ بھی نہیں کیا اور تمھاری طرف چلی آئی“ لیزا نے آواز لگائی تو وہ خیالوں کی دنیا سے لوٹ آئی۔
”او۔کے۔ چلو کچن میں خود ہی کچھ کرتے ہیں اور جنید کو فون بھی کرتے ہیں اس کے بعد“ وہ دونوں کچن میں آ گئیں۔
”روما ! تمھیں پتہ ہے سبرینا کیا کرتی پھر رہی ہے آجکل“ لیزا کافی عرصے سے رومانہ سے اس موضوع پر بات کرنا چاہ رہی تھی
”کیا کر رہی ہے ماڈلنگ بھئی what else she can do ایک ماڈل تو وہی کرے گی ناں جو اس کا جاب ہے“۔
”یہ تمھیں کس نے کہا بائی دی وے جاب والا قصہ۔ یقیناََ جنید نے“َ لیزا کا خیال بالکل درست تھا۔
”ہاںجے جے کہہ رہا تھا کہ شی از ویری پروفیشنل I mean in her performance on the show“ اس نے بے نیازی سے جواب دیا۔
”اور اس ماڈلنگ پرفارمینس کا نہیںبتایا جو وہ جے جے کی لائف میں کر رہی ہے آجکل“۔ لیزا کو غصہ آ رہا تھا۔
”نہیں نہیں یار۔ ماڈلز جنید جمال کا کبھی بھی انٹرسٹ نہیں رہیں۔ وہ ایک پرانی ویلیوز والی فیملی سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی اماں اور بہنوں سے میں ملی ہوئی ہوں۔ وہ بھی کنزرویٹو خیالات رکھتی ہیں“ ٹوسٹر میں توس جلنے کی بوآنے پر دونوں اچھل پڑیں۔
”تم بھی ناںبات کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہو گوسپ مائینڈڈ“ رومانہ اب انڈے فرائی کرنے لگ گئی تھی اور اس کے چہرے پر پھیلے اپنے محبوب پریقین کی روشنی اتنی زیادہ تھی کہ لیزا نے کچھ کہنا چاہا لیکن پھر موضوع بدل دیا۔
” فائن، فائن یار تم جنید جمال کو مجھ سے زیادہ بہتر جانتی ہو۔ ہاں آج شام کلب کی پارٹی میں میں کیا پہنوں ؟اور تم کیا اسپیشل کوسٹیوم نکالو گی وہ لہنگا ہی پہن کے دکھا دو جو اپنی ویڈنگ کے لئے بنایا ہے ’ ڈی اینڈ ڈٰ ی‘ کیr owneنے“ لیزا پھر شرارت پر اتر آئی تھی۔
”شٹ اپ بکواس بند کرو فی الحال اینڈ بی اے نائس بے بی اینڈ کیری دس بریک فاسٹ ٹو دی ٹیبل“ رومانہ نے اسے آرڈر دے ڈالا۔
اور اب ”یس باس“ کہنے کے سوا لیزا کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔
٭٭٭
کلب کی گیدرنگ میں اس کی آج جنید جمال سے ملاقات ہونی تھی۔ ’ وہ پارلر میں تیار ہوتے ہوئے سوچ رہی تھی۔’اور جب وہ مجھے ڈراپ کرنے آئے گا تو میں اس سے ڈائریکٹ بات کروں گی کہ ان کی شادی کے سلسلے کو آگے بڑھنا چاہئے اب ۔‘ اس سے آگے سوچنے سے ہی وہ بلش کر گئی اور یوں بھی گاڑی اب پارکنگ میں پارک کر چکی تھی وہ اور محبت پر اس کے یقین نے اس کے چہرے پر بہت سے رنگ بکھرا دئے تھے۔
”اوہ واﺅ روما ! واٹ اے بیوٹی آر یو“ اسے تانیہ نے کلب کے دروازے پر روک لیا۔
” تھینک یو! جنید کو دیکھا ہے وہ آئے ہیں کیا“ ؟ اس نے اپنی تعریف پر مسکرا کر اگلا سوال یہ کیا۔
”ہاںابھی کسی کا فون ریسیو کرنے گئے ہیں مینجر کے کمرے میں“ تانیہ نے بتایا تو وہ سیدھی وہاں چل دی۔ جنید ڈارک گرے سوٹ میں کافی ہینڈ سم لگ رہے تھے اور ہنس ہنس کر باتیں کرتے ہوئے اور بھی چارمنگ۔ وہ دبے پاﺅں قریب چلی آئی لیکن دروازے کے پاس اپنا نام سن کر اس کے پاﺅں رک گئے۔
”سبرینا ! کم آن ،میں رومانہ سے شادی کرونگا۔ مائی گاڈ یہ اسٹوپڈ آئیڈیا تمھیں آیا کیسے؟۔ یہ جنید کی آواز تھی وہ لڑکھڑا گئی۔میں ذرا فرینڈلی نیچر کا آدمی ہوں اور اس سے شروع ہی سے ایک دوستی سی ہے لیکن وہ سمجھ جائے گی۔ میرا اور اس کا رشتہ خالص بزنس ریلیشن شپ ہے اور
I respect her because she is an elderly lady.۔ اور یوں بھی رومانہ مظفر مجھے اب مینیجنگ پارٹنر بنانے والی ہے ذرا سا اوربرداشت تو کرنا ہو گا ۔
اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ یہ جاننے کے باوجود بھی کہ مرد کبھی بھی قابلِ بھروسہ ساتھی نہیں ہوتا، وہ اس پر مر مٹی تھی۔ اور ساتھی تو کیا وہ تو ذرا دیر کو قابلِ اعتماد ہمسفر بھی نہیں ہو سکا۔ نہ جانے کب سے اس کے یقین کی چادر کو تار تارکر رہا تھا؟ نہ جانے کب سے اپنے لالچ کی عمارت رومانہ کے نازک خوابوں کی زمین پر رکھ رہا تھا۔ پھر مجھ پرکیوں ان سارے دنوں میں کھل نہیں سکا وہ شخص اپنی اصل نیچر کے ساتھ‘ I made a fool of myself ۔ مجھے چہروں کے ماسک کے پیچھے سے اصل چہرے دکھائی کیوں نہیں دیتے۔ میں اس جیسے opportunist کے لئے ایک ’ایلڈرلی لیڈی ‘ ہوںاور بس، اور وہ سارا التفات اس کے اپنے مالی اور ذاتی فائدے کی خاطرتھا۔ ”رومانہ مجھے بزنس پارٹنر بنانے والی ہے“ اس کے الفاظ کانوں میں گونج رہے تھے ’ ’وہ ایک ایلڈرلی لیڈی ہے“۔ ’او مائی گاڈ آئی ہیٹ ہم ‘ نہیں نہیں آئی ہیٹ آل دی مین ان دی ورلڈ‘ وہ سوچے جا رہی تھی ۔ ’فریبی، مکار، دھوکے باز‘، مرد کی صرف یہی Definition ہے اور بس ۔ اور پھر تھوڑی دیر گاڑی سڑکوں پر بے مقصد دوڑانے کے بعد کچھ سوچ کر اس نے گاڑی ایک سمت کو موڑ لی۔
٭٭٭
”اوہ بی بی جی آپ اور ہماری بستی میں“ ماسی کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ یہاں آ گئی تھی کچی بستی میں اس کی ماڈرن سی مالکن اور ماسی کے ہاتھ پاﺅں پھولے جا رہے تھے مارے خوشی کے۔
”ماسی! تمھاری بہن کی لڑکی بھاگ بھری کی شادی کب ہے“؟ اس نے گاڑی سے اتر کر ساری بستی کی عورتوں پر نظر دوڑاتے ہوئے پوچھا جو جانے کہاں کہاں سے ایک منٹ میں اکٹھی ہو گئی تھیں۔ میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس عورتیں اور ننگ دھڑنگ بچے سب اسے دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔
”اوہ وہ جی نئے چاند کی بارہ تاریخ پر“ ماسی نے خوشی سے کہا۔ زبیدہ بڑی غریب ہے بھاگ بھری کی ماں جی۔ پر میں نے کہا تھا تو فکر نہ کر میری مالکن ضرور کچھ نہ کچھ مدد کریں گی“۔ ماسی خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھیں۔ ”آئیںناں بی بی جی“۔
”نہیں میں جلدی میں ہوں، اندر نہیں آ سکتی“۔ ’کتنے کام کرنے ہیں ابھی اس نے سوچا، ’اپنے وکیل کو فون کر کے جنید کی مینیجنگ پارٹنرشپ کے کاغذات کی تیاری کینسل کروانا اور اپنے بزنس کو باہر شفٹ کرنے کا اعلان، پریس کانفرنس اور اپنے سارے Assests کا دفاع جنہیں مردار گوشت سمجھ کر گدھ کی طرح نوچ لینا چاہتا ہے وہ۔‘ جذبے ضائع کر دئے مگر اپنے ایسٹس تم پر ضائع نہیں ہونے دونگی جنید جمال میں کوئی ایسی کمزور عورت بھی نہیں‘ وہ فیصلہ کر کے مطمئن ہو گئی۔
”ماسی تم بھاگ بھری کولے کر میرے گھر آ جاﺅ کافی چیزیں ہیںمیرے پاس بھاگ بھری کی شادی کے لئے اور وہ لہنگا اور جیولری وغیرہ “ ۔ اس نے گویا حکم صادر کرتے ہوئے کہا۔
” بی بی جی آپ تو کہتی تھیں کہ بہت مہنگے ہیں یہ جوڑے ، بھاگ بھری اسے وہ ۔۔ وہ ۔۔کیا کہتے ہیں افورڈ نہیں کر سکتی“۔ ماسی نے اس کا بولا ہوا جملہ یاد کر رکھا تھا۔
”بھاگ بھری افورڈ کر سکتی ہے ماسی! لیکن میرے جیسی کوئی ’ایلڈرلی لیڈی ‘ نہیں۔“ اس نے گویا اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے ایکسیلیریٹر پر پاﺅں دبایا اور گاڑی زن سے دھول اڑاتی ماسی کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
”اب پتہ نہیں یہ کیا بلاہے ’ ایلڈرلی لیڈی“ ماسی نے اس کے الفاظ دہراتے ہوئے کہا اور زیتون اور زہراں کو اپنی طرف دیکھتا پا کر فوراََ بات بنا لی۔” مجھے کہہ رہی تھیں بی بی ادب سے، میرے ساتھ بی بی انگریزی میں باتیں کرتی ہے ناں تو مجھے سب سمجھ آتی ہے۔ چلو بھاگ بھری سے کہو جلدی تیاری کرے“۔ ماسی اور سب کچی بستی والی عورتیں بھاگ بھری کو بلانے چل دیں۔
No comments:
Post a Comment