رنر اَپ عابدہ تقی
”سارا سارا دن دھوپ میں اس پرانی سائیکل کو چمکاتے بھی رہو تو بھی دو نمبر ہی آﺅ گے بیٹا۔ ابا کو شاید اس میں جیت کا جذبہ زیادہ کرنا مقصود ہوتا تھا یا اسے غیر نصابی سرگرمیوں سے باز رکھنا۔فہد کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔
”دو نمبر نہیں ابا۔۔رنر اپ کہتے ہیں سیکنڈ آنے والے کو“ فہد امیرنے مسکرا کر بات بدل دی۔
”ہمیشہ دانش درانی ہی نمبر ون کیوں آتا ہے ۔کبھی اس بات کو سوچا ہے تم نے؟“ ابا نے اسے پھر چڑانا چاہا۔
” ابا وہ مجھ سے زیادہ مقابلوں میں شریک ہوا ہے اور اس کی تیاری اچھی ہوتی ہے۔۔اسی لئے“ فہد امیر نے کبھی اس سے زیادہ کھوجنے کی کوشش نہیں کی تھی اپنے رنر اپ ہونے کی وجہ یا پھردانش درانی کی ہمیشہ اس پر سبقت لے جانے کی۔۔۔”ابا ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے کھیل میں اور بائیسکل رائیڈنگ بھی تو کھیل ہی ہے ناں“ اس نے سیدھا سا جواب دے دیا۔ ہمارے ہاں ہر کھیل کے شروع میں کہا جاتا ہے May the best man win۔۔مطلب جو سب سے بہتر ہو اسے جیتنا چاہیئے اور اب تک شائید وہ سب رائیڈرز میں بہتر رہا ہے“۔
”دانش درانی کا باپ امیر ہے اور اداروں کو اور اسپورٹس آرگنائزرز کو اندر ہی اندر مراعات دیتا ہے بہت سی۔۔سنا ہے اس بار جو کمپنی بائیسکلز اسپانسر کر رہی ہے وہ بھی اسی کے بھائی کی ہے تو۔۔۔۔“ ابا نے بات ادھوری ہی چھوڑ دی۔ ان کا مطلب فہد امیر کی سمجھ میں آ گیا تھا لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ باقی لوگ مقابلے میںآنا ہی چھوڑ دیں کیونکہ دانش درانی کا باپ امیر اور اثر و رسوخ کا مالک ہے۔ فہد کا یہی خیال تھا کہ یہ بات وہ غلط ثابت کر کے دکھائے گا کہ جیتنے کے لئے کسی اس طرح کے Pre-work کی ضرورت ہوتی ہے۔
© ©” ابا آپ کو معلوم ہے ہمیں اس ریس میں گیری فشر کمپنی کی ”ایکسیلشئیر پلس ماﺅنٹین بائیکس“ مل رہی ہیں“۔ فہد کے چہرے پر خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔
”ارے سائیکلیں ہمارے زمانے میں ہوتی تھیں۔۔۔یار میں جب ڈاکیہ بھرتی ہوا تھا تو پاکستان میں ”ہرکولیس“ کی سائیکل بہت مہنگی اور مشہور تھی۔۔ باہر کے کسی ملک کی کمپنی بناتی تھی۔بڑی تگڑی سواری تھی۔ تمھیں پتا ہے محکمہءڈاک سالانہ کارکردگی کے اعزاز میں کچھ سائیکلیں انعام میں دیتا تھا اور تمھارا باپ وہ ایک سائیکل جیتا ہوا ہے“ ابا اسے ہمیشہ اپنی پہلی وردی، پہلی سائیکل اور پہلے خط کی تقسیم کا جب تک نہ سنا لیں ان کا دل نہیں بھرتا تھا اور وہ بھی مزے سے سنتا تھا۔
”اچھا آپ کو بھی ہرکولیس سائیکل ملی انعام میں“ فہد نے پیڈلز کو چمکاتے ہوئے سوال داغ دیا۔
”نہیں یار۔۔ہمیں تو ”سہراب“ کی سائیکل ملی تھیںلیکن خیر وہ بھی ہرکولیس سے کم نہیں تھی کسی طرح بھی۔“ ابا پرانی یادوں میں کھو نے لگے۔
وقت کی اس کروٹ پر امیر خاں صاحب کو افسوس تھا کہ جس نے بائیسکل جیسی با عزت سواری کو اس قدر و منزلت سے گرا دیا تھا جس کی وہ اہل تھی۔ یہ بائیسکل کی محبت ہی تھی کہ انہوں نے محکمہ ¾ ڈاک کی ملازمت اختیار کی تھی ۔ کتنے چہروں پر خوشیوں کے چاند چمکتے تھے جب وہ انہیں ان کے دور دیس رہنے والوں کے خط یا تار پہنچانے جاتے تھے۔۔کتنے سونے چہروں پر مسکراہٹوں کی رونقیںکھیلنے لگتی تھیں جب وہ کسی تنگدستی میں گھرے لوگوں تک منی آرڈر کی رقم پہنچاتے تھے۔ ان ساری خوشیوں کے اسباب اس سائیکل کا پہیہ گھومنے ہی سے ہواکرتے تھے۔ لیکن انہیں اس بات کا افسوس تھاکہ اس دور میں نہ سائیکل کی عزت ہے نہ ہی سائیکل سوار کی۔ اپنے بیٹے کو کتنا عرصہ اسی بائیسکل پر بٹھا کر وہ اسکول چھوڑ کر آتے تھے ۔ ان کے خیال سے ان کے بیٹے فہد نے سائیکل کی عزت نہیں کی بلکہ کالج کی بائیسکل ریس میں جیتنے کے لئے اس سے وابستہ ہو گیا تھا اور آج بھی اگر اس کا شوق تھا تو بائیسکل رائیڈرز کا چیمپین بننے کی خاطر۔
”کھانا کھا لو آ کر باپ بیٹا دونوں تا کہ کام ختم کر کے میں بھی کمر سیدھی کروں “ اماں نے برآمدے سے آواز دی تو ابا بھنا گئے۔
”ارے آ رہے ہیں۔اتنی اونچی آواز تو پھیری والے کی بھی نہیں۔۔اللہ کی بندی آئیستہ بولا کرو۔ جب سے بیاہ کر آئی ہے ناں اس گھر میں تمھاری ماں،آواز اتنی ہی کراری ہے“۔۔ ابا اب ریٹائرمنٹ میں اماں سے نوک جھونک میں وقت گزارتے تھے۔
”اچھا اور میں جب سے بیاہ کر آئی ہوں دو سوکنوں کے قصے ہی سنتی رہی ایک تمھاری ”ہرکولیس“ اور ایک وہ کیا نام تھا اس فلم ایکٹریس کا جس پر تم“۔۔۔ اماں کے اور اونچا بولنے پر ابا دبک گئے۔۔
”کیا کرتی ہونیک بخت ۔۔چپ کرو یہ کوئی بات ہے کرنے کی۔۔آج کیا پکایا“ ابا کی دھیمی پڑتی آواز پر وہ مسکرا کر اٹھ کھڑا ہوا کیونکہ اگلی آواز اماں نے اسے ہی دینی تھی۔
”دیکھو دانش تکنیکی اعتبار سے تم اس اصول پر زیادہ عمل کرتے ہو کہ کہ جس میں اپنے ساتھی رائیڈر کی پیڈلنگ ورک بڑھا کر اسے ابتدائی مرحلے میں تھکا دیتے ہو اور ڈھلوانوں پر دوسرے بائیسکل رائیڈرز کی نسبت تم اپنی اسپیڈ کو ایک خاص مہارت سے کم یا زیادہ کر سکتے ہو لیکن اس بار جو ریس ہے اس میں چڑھائی یعنی Climbs زیادہ ہیں جن سے تمھارا واسطہ پڑنے والا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم کلائمب ورک زیادہ کرو“ دانش درانی اگرچہ اب تک روڈ بائیسکل رائیڈنگ ریس کا نا قابلِ شکست سائیکلسٹ مانا جاتا تھا لیکن اس کے کوچ ڈار صاحب کچھ غیر مطمئن تھے۔
”سر کیا آپ نے اب تک کلائمبس پر میرا اسٹیمنا کم ہوتے دیکھا ہے؟ دانش نے الٹا انہی پر سوال کر دیا۔
”نہیں یہ بات نہیں ہے ۔بات یہ ہے کہ اس سے پہلے تمام ٹریک سیدھے سیدھے رہے ہیں۔۔یہ مقابلہ جس شہر میں ہونے جا رہا ہے وہ پہاڑی ہونے کی وجہ سے ٹریک میں دو چیزیں تمھارے لئے چیلنج بن سکتی ہیں۔۔Steep turns اور کلائمبس“۔۔ ڈار صاحب منجھے ہوئے کوچ تھے اور مقابلے کے لئے منتخب ٹریک کو دیکھ چکے تھے۔
”میرا خیال ہے کہ یہ کوئی زیادہ بڑا چیلنج نہیں ہیں میرے لئے۔۔لیکن پھر بھی آپ کہتے ہیں تو ٹھیک ہے“۔ دانش مسکریا اور اس مسکراہٹ سے اس کی آنکھوں میں وہ چمک نمایاں ہو گئی جس میں اس کی پچھلی تمام ٹرافیاں اور مقابلوں کے مناظر بھی گھوم گئے۔ اس ملک کے تمام کالجزکے بائیسکل رائیڈرز کو ہرا چکا ہوں۔ آئی ایم ان بیٹ ایبل“ اس نے اپنی سوچ سے محظوظ ہوتے ہوئے سنا ڈار صاحب کہہ رہے تھے۔
”کلائمبس پر اکثر سائیکلسٹ تیز رفتاری سے فاصلہ طے کرنے کی خواہش میں اپنا اسٹیمنا یعنی توانائی کو ضائع کر دیتے ہیں۔ اسے چڑھائی پر بچا کر رکھنا چاہیئے بے شک رفتار اگر دھیمی بھی کرنی پڑے ۔پھر ڈھلوان سے لے کر سیدھے ٹریک پر آنے کے بعد اسی بچائی ہوئی توانائی کو استعمال کرنا چاہیئے‘۔ کوچ ڈار صاحب سائیکلنگ اسپورٹس کی باریکیوں کو جانتے تھے۔
”آل رائیٹ سر آج کے لئے اتنا کافی ہے!“ اس نے منرل واٹر کی بوتل سے کافی سارا پانی حلق میں انڈیلا کچھ مینہ پر گرایا اور کچھ شرارت میں اپنے کوچ پر اچھال دیا۔
”سنبھل کے یار۔۔میں کوچ ہوں تمھارا اور تم سے بڑا بھی“ انہوں نے بناوٹی غصے سے کہا۔
”او کم آن۔۔۔یو نو دیٹ یو آر گونگ می ویری ٹف ٹائم“ دانش نے کہا تو دونوں ہنس پڑے۔
یہ کوئی پہلے بار نہیں تھی کہ وہ سائیکل ریس میں حصہ لے رھا تھا اور نہ ہی ایسا تھا کہ اسے ہار جانے کا ڈر تھا۔جیت کے چبوترے پر سب سے بلند کھڑے ہونے اور ٹرافی کو کاندھوں سے اونچا کر کے دکھانے پر تالیوں کا شور، کیمروں کی روشنیاں اور کلک کلک کی آوازیں۔۔ ہجوم کا ایک دیوانگی کے عالم میں اس کی طرف بھاگنا۔۔۔یہ سب دانش کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا۔ سائیکلنگ ٹریک اس بار بھی اس کے اسٹیمنا کے سامنے کچھ خاص طویل نہیں تھا سو ڈار صاحب کی نصیحتیں اسے زیادہ متاثر نہیں کر سکیں۔
”ایوری تھنگ از گوینگ تو بی آل رائیٹ دانی۔ چئیر اپ“ اسے گہری سوچ میں ڈوبا ہوا پا کر مما اس کی توجہ کسی اور طرف منتقل کرنے لگیں۔
’‘ اچھا ناشتہ کرو چیمپ“ مما کے اسے چیمپ پکارنے پر وہ مسکرا دیا۔
”بیٹا میرا ایک اصول ہے جب بھی کسی مقابلے میں جاﺅ تو کوئی اور سوچ مائینڈ پر نہ لے جاﺅ Just focus on your victory“ پاپا نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔
”مائی سن از آل ٹائم وِنر۔۔آئی نو اٹ“ مامانے اس کا کاندھا تھپتھپایا۔
”جیت کو اعصاب پر سوار کرنے کی ضرورت نہیں۔جیت کبھی کبھی انسان کی ہار ہوتی ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی کبھی انسان ہار کر بھی جیت جاتا ہے“ دادا نے جنہیں پیار سے دانش گرینا کہاکرتا تھا ان کی گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے گہری فلسفیانہ بات کی جو ان کی عادت تھی۔
” آخر اس عمر میں تجربات کا نچوڑ ہی رہ جاتا ہے انسان کے پاس۔،تجربوں کی عمر تو گزر چکی ہوتی ہے ناں“یہ مما کہا کرتی تھیں گریناکی باتوں کے بارے میں“۔
”کوئی ضرورت نہیں ان کے فلسفے پر زیادہ غور کرنے کی دانی“ مما ناشتے کی ٹیبل سے اٹھتے ہوئے بولیں۔ لیکن سچ بات یہ تھی کہ وہ اپنے داداکی باتوں پر غور کرتا تھا۔ پچھلی مرتبہ ٹرافی کو ہاتھ میں اٹھا کر جب اس نے فاتحانہ نظروں سے رنر اپ کی طرف دیکھا تھا جس نے اسے بہت سخت مشکل سے جیتنے دیا تھا تو وہ بہت حیران ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر پھیلے ہوئے اطمینان نے دانش کی جیت کے ستاروں کی روشنی ماند کر دی تھی۔ ۔۔اس کی مسکراہٹ میں اور اسے مبارکباد دینے میں بشاشت کے اظہار میں ایسا تاثر تھا جیسے ریس اس نے جیتی ہے۔حالانکہ ’رنر اَپ“ کے چہرے پر اس کا احساسِ شکست خوردگی صاف لکھا ہوا ہوتا ہے۔
”گُڈ جاب رنر اپ“ اس نے فہد کو اتنا بھی بہت مشکل سے کہا تھا۔۔ جیت کا نشہ کچھ کہنے سننے کا موقع ہی کب دیتا ہے لیکن ایک بات اس کے کانوں میں اب تک گونج رہی تھی۔
”اگلی بار شاید آپ رنر اپ ہوں دانش بھائی اور میں آپ سے یہ سب کہہ رہا ہوں گا“ اس کے اس جملے پر سب کھلکھلا کر ہنس پڑے تھے ۔ کچھ بھی ہو اس کا اخلاق اور اسکی Sportman spirit کو داد دینی پڑے گی ۔ دانش اس سوچ کے ساتھ ہی مسکرا کر اپنے داد دینے والے شائقین کی طرف مڑ گیاتھا۔
”اصل جیت کیا ہوتی ہے گرینا؟ اس نے دادا سے پوچھ ہی لیا شاید
”دیکھو بیٹا اصل جیت وہ ہوتی ہے جو انسان کو اندر تک سرشار کر دے چاہے دنیا اسے جیت کہے یا نہ کہے“، گرینا نے اخبار پر نظریں جما رکھی تھیں۔
”تو میں نے آج تک اپنی محنت سے جو مقابلے جیتے ہیں کیا یہ آپ کی نظر میں جیت نہیں ہیں۔۔ جب کہ میرا نام اب نیشنل لیول پر انہی کامیابیوں کی وجہ سے لیا جانے لگا ہے۔“ دانش بحث کو آگے بڑھانا چاہتا تھا۔
” کامیابیاں یقیناََ ہیں مائی چائلڈ۔ آئی ایم سوری میں تمھیں کنفیوذ کر رہا ہوں۔ جب تم میری عمر کو پہنچو گے تو یہ فلسفہ سمجھو گے ۔ لیکن ایک بات بتاﺅ۔تمھاری ہر وکٹری پر تمھارے فینز، سپورٹرز، گھر والے، دنیا، اخبارارت یہ سب تو خوشی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔کیا کسی جیت پر تمھارے دل نے وہ خوشی منائی ہے کہ جس کے سامنے ہر خوشی ماند پڑ جائے۔ “؟ دانش کے پاس اس کا جواب نہیں تھا اور وہ”او۔کے۔گرینا! آئی ریئلی ھیو ٹو گو‘ کہتے ہوئے موبائل کانوں سے لگا کر ہاتھ ہلا کر دادا کو خدا حافظ کا اشارہ کر کے باہر نکل گیا۔
٭٭٭
”سنا ہے دانش درانی کے کالج کے پرنسپل نے کوئی اچھا کوچ منگایا ہے اور وہ لڑکوں کو ٹریننگ دے رہا ہے‘۔‘ ؟ ابا کو کالج کی خبریں اس سے
پہلے پہنچ جاتی تھیں اور اس کی وجہ ان کا سوشل نیٹ ورک تھا۔۔ ابا نے میل ملاقات کا سلسلہ محلے کے تمام اہم لوگوں سے رکھا ہوا تھا۔ مگر اماں کہتی تھیں کہ کتابوں کی دکان پر بیٹھ کر سارے اخبار مفت پڑھ آتے ہیں اور گھر آ کر نیوز چینلز کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ انہیں خبریں نہیں معلوم ہونگی تو اور کس کو ہونگی“۔
”ہاں بھئی امیر لوگوں کے لڑکے وہاں پڑھتے ہیں تو یہ سارے چونچلے تو ہونگے“ اماں کا دل پہلے ہی جلا ہوا تھا اپنے بیٹے کو ہرانے والے کو وہ خوب صلواتیں سنا سکتی تھیں۔
” جی ابا۔۔ڈار صاحب بہت منجھے ہوئے کوچ ہیں “ اس کے لہجے میں اداسی تھی جیسے کہہ رہا ہو میں بھی اس کالج میں ہوتا تو جدید ٹیکنیکس پر سیکھ رہا ہوتا وہ بھی ڈار صاحب سے۔
”تمھارے کالج کے پرنسپل کیوں نہیں کسی کو ٹرینر بھرتی کر لیتے؟۔ تم لڑکے بات تو کر سکتے ہو ناں مل کر“۔ ابا کریدنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔
”بات کی تھی لیکن جواب وہی تھا کہ فنڈز نہیں ہیں کہ کوئی ماہر ٹرینر رکھا جائے“۔۔وہ تو بھلا ہو کہ اسکول کے اسپورٹس کے ہی ایک ٹیچر اتنے مہربان تھے کہ اسے اور چند اور لڑکوں کو کسی مقابلے سے پہلے کچھ پرانے مروجہ بنیادی اصولوں پر رہنمائی کر دیتے تھے۔ لیکن ہر اہم مقابلے کے قریب سب لڑکے کسی نہ کسی بہانے سے خود کو الگ کر لیتے تھے۔ یہ صرف فہد امیر ہی تھا جو سیکنڈ ھینڈ ریسنگ بائیسکل پر بھی اپنے جذبے کی شدت سے ”رنر اپ“ کا ٹائیٹل جیت آیا تھا۔ ورنہ جب پچھلی مرتبہ بھی ریفریشر ریہرسل کے لئے ٹیم اکٹھی ہوئی اور نئے نئے ماڈلز کی بائیسکلز اپنے رنگوں اور جاذبیت کے ساتھ ٹریک پر آئیں تو اسے یقین نہیں تھا کہ وہ اپنی سیکنڈ ھینڈ ریسنگ بائیسکل پر ”رنر اپ“ کا ٹائیٹل جیت سکے گا لیکن جذبے کی شدت نے اس سے یہ کام کروا لیا تھا ۔
”ڈار صاحب! کہاں تک پہنچی ہے آپ کی ٹریننگ اب تک“ کالج انتظامی امور ، غیر نصابی سرگرمیوں کے انچارج، اسپورٹس کے انچارج اور پرنسپل صاحب بریفنگ میں شامل تھے ۔بات نہایت سنجیدہ تھی کیونکہ کالج کی عزت کا سوال تھا اور بطور پرنسپل وہ ینگ سایکلسٹ چیمپئین ٹرافی کو اپنے کالج میں آتے دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لئے وہ ا س بارذاتی طور پر اتنی دلچسپی لے رہے تھے۔
”سر چونکہ یہ سنگل ڈے ریس کی طرز پر ایک مناسب حد کی طوالت پر مبنی ٹریک سائیکلنگ ریس ہے تو میں لڑکوں کو زیادہ الجھانا نہیں چاہتا۔ اسٹیمنا اور فٹنیس کے بعد بنیادی اصولوںمیں سے یہاں جو کام آئیں گے ان میں اہم speed, climbs اور Terrain اس کے ساتھ ساتھ ڈرافٹنگ، بریکس، attacking riders technique یہ سب اب تک میں نے کور کر لیا ہے“ ڈار صاحب محنتی کوچ تھے اور ماضی میںعالمی سطح کا سائیکلنگ اسپورٹس کا ماہرانہ تجربہ رکھتے تھے۔
”او۔کے۔۔“ پرنسپل صاحب متاثر ہو کر بولے۔کتنے لڑکے اس قابل ہیں کہ نیشنل لیول کے کالجز کے مقابلے میں جنہیں بالکل تیار سمجھا جائے“۔
”سر سعد عمران کا کلائمب ورک اچھا ہے اس کے ساتھ ساتھ اسے اسپیڈ اور بریکس پر مہارت ہے۔۔ سعید کاشف کے جنرل ٹیکٹکس حیران کن ہیں اور دانش درانی کی ڈھلوان پر رفتار میں قابو اور مقابل کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی پھرتی اس کو آل راﺅنڈر بناتی ہے۔۔لیکن اس ریس میں کلائمبس زیادہ ہیں تو میں دانش کو کلائمبس کی ٹریننگ پر فوکس کئے ہوئے ہوں۔
”آپ کے خیال میں کس لڑکے کو کالج کی نمائیندگی کرنی چاہیئے“۔
”سر سعید کاشف اور دانش درانی دونوں ماہر فائیٹرز ہیں اوروں کی نسبت تو میں تو دونوں کو اس ریس میں بھیجنے کی درخواست کروں گا“َ ڈار صاحب نے مختصر اور نتیجہ خیز بات کرتے ہوئے کہا۔
”سر یہ بھی دیکھیں کہ کبھی بھی سائیکلنگ اسپورٹس میں ٹرافی لایا ہے کالج کے لئے تو دانش درانی ہی لایا ہے“ کالج کے اسپورٹس انچارج چاہتے تھے کہ اس اہم بات کو نظر انداز نہ کیا جائے۔
”جی سر میرے خیال میں بھی دانش درانی سے جیت کی پوری امید کی جا سکتی ہے“ غیر نصابی سرگرمیوں کے انچارج پروفیسر صاحب نے بھی یہی رائے دی تو پرنسپل صاحب نے ڈار صاحب کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
”سر اگر آپ اسے جانبداری نہ سمجھیں تو دانش میں جیتنے کا Potential زیادہ ہے“ ڈار صاحب کی بات پر سب نے اتفاق رائے سے سر ہلایا۔
”او۔کے۔ آپ باقی کی ٹریننگ پوری کریں ڈار صاحب۔۔ ٹرافی ہمارے کالج میں ہی آنی چاہئے۔“ پرنسپل صاحب نے بات ختم کر دی اور ڈار صاحب کمرے سے باہر نکل آئے۔
فہد امیر نے ٹرین سے روانہ ہونا تھا اور جس حساب سے ریل گاڑیاں لیٹ ہو رہی تھیں اس میں ابا کا خیال درست تھا کہ وہ بلائے گئے دنوں سے ایک دن پہلے پہنچے ۔ ریسیپشن پر پہنچ کر رجسٹریشن کروانے کے بعد اسے اس کا کمرہ الاٹ کر دیا گیا۔ کمرہ زیادہ کشادہ اگر نہیں تو تنگ بھی نہیں تھا۔ صاف ستھرے ٹائیلوں والے فرش پر مناسب فاصلے سے دو بیڈز، کچھ فاصلے پر صوفہ اور ٹیبل، دیوار گیرمناسب الماری، اور ایک عدد ٹی۔وی۔ یہ بہت اچھا انتظام تھا۔ شہر کی انتظامیہ کی جانب سے یہ ہاسٹل بلڈنگ خاص طور سے ریس میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کے لئے مخصوص کی گئی تھی۔ وہ نہا کر تازہ دم ہونے کے بعد بلڈنگ کا راوئنڈ بھی لے آیا تھا اور اس ٹریک کا بھی جس پر دو دن بعد ریس ہونے جا رہی تھی۔ شہر کے اس حصے کی رونق بڑھنی شروع ہو چکی تھی اور بلڈنگ میں تو خوب گہما گہمی تھی۔ کافی کالجز کے لڑکے پہنچ چکے تھے اور آنے والے لڑکے سب ایک دوسرے سے گھل مل چکے تھے۔ ابتدائی بریفنگ سیشنز اور فٹنیس پریکٹس بھی شروع ہو چکی تھی۔ آج دوپہر کے کھانے کے بعد میدان میں ایک چھوٹی سی تقریب تھی جس میں کمپنی اور میزبان کالج کی انتظامیہ کی جانب سے ریسنگ بائیسکلزدی جانی تھیں۔ فہد امیر کو اپنی جدید ریسنگ بائیسکل پا کر بہت عجیب سی خوشی محسوس ہو رہی تھی۔ تقریب کے اختتام پر انہیں ٹریک پر ٹیم کی صورت جانے کی اجازت مل چکی تھی کہ وہ پریکٹس کے مرحلوں سے گزر لیں۔ ریس کورس کا ایک چکر لگا کر جب فہد امیر کمرے میں آیا تو کمرے میں ایک مہمان موجود تھا اس کا ساتھی اسپوڑٹس کولیگ بستر پر نیم دراز اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا۔
”نائس ٹُو میٹ یو ”رنر اپ“ اس نے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔
”سیم ھیئر ۔۔۔دانش بھائی“ اس نے جواباََ ہاتھ ملاتے ہوئے اسے Champنہیں کہا۔
نیلا آسمان اور سنہرا چمکتا ہوا سورج شہر کے سبز منظروں کی خوبصورتی کو اور بھی نمایاں کر رہا تھا۔ پنڈال میں شائقین اور معزز مہمانوں کے لئے کرسیاں لگ چکی تھیں۔ یہ پنڈال ریہڈرز کی جیت کی ٹارغیٹ لائین کے کچھ فاصلے پر سجایا گیا تھا اور اس کے بالکل سامنے وہ ڈائس جس پر مہمانانِ خصوصی کی نشستیں اور قریب ہی جیتنے والوں کا وکٹری اسٹینڈ۔ اس سے تھوڑا سا اوپر کیمنٹیٹرز باکس اور کیمرہ کوریج کی جگہیں بھی مخصوص کر دی گئی تھیں۔ شہر کے ایک لمبے علاقے سے گزر کر آنے والے ریس کے ٹریک پر مناسب فاصلے پر سرخ جھنڈوں اور تیر کے نشان سے راستے کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ فرسٹ ایڈ کے انتظامات کے ساتھ ایک وین کو بھی رائیڈرز کے بالکل پیچھے روانہ کرنے کا انتظام کر دیا گیا تھا۔۔ فہد امیر کے ساتھ ساتھ باقی تما م رائیڈرز اپنی اپنی کٹ اور ہیلمیٹس میں نقطہ ¾ آغاز تک آ چکے تھے۔ اپنی اپنی اسپورٹس شرت کے پیچھے درج نمبروں سے پہچانے جا رہے تھے لیکن ہر کالج کے اسپورٹرز کو علم تھا کہ ان کا کھلاڑی کا نمبر کیا ہے۔ جبھی شائقین میں نمبرس کے پلے کارڈز لہرا رہے تھے۔ ہجوم کے درمیاں نوجوان نسل نے دانش درانی کے پوسٹرز بھی اٹھا رکھے تھے لیکن فہد امیر کو اس بات کی توقع نہیں تھی کہ اس کی تصویروں کے کارڈز بھی بڑی تعداد میں موجود تھے اور جہاں دانش ۔۔۔دانش دانش۔۔کی آوازوں میں شور اٹھتا تھا وہیں ایک بڑے حصے سے فہد۔۔فہد۔۔فہد کی آوازیں بھی اس شور میں شامل تھیں۔۔ فہد کے چہرے پر خوشی کی سرخی دوڑ گئی۔
اس کے دائیں ہاتھ سے دانش درانی نے ہجوم کی طرف ہاتھ لہرایا اور پھر مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور بولا ”ریڈی رنر اپ؟“ گویا وہ جیت کی ٹھان چکا تھا۔۔
ہجوم جوش کے مارے بے قابو ہوا جا رہا تھا۔ وکٹری ٹارگیٹ فلیگ لائین سے وہ کچھ فاصلے پر تھا رائیڈر نمبر 7 ہجوم کا من چاہا ہیرو یعنی دانش اور اس سے تھوڑے سے فاصلے پر تیزی سے آگے بڑھتا ہوا نمبر 14۔وہ بائیسکل پر جھکا ہوا تھا اور اس کے پاﺅں پیڈلز پر یوں حرکت کر رہے تھے گویا سائیکل نہیں جہاز ہے جسے رن وے پر ٹیکسنگ کے بعد فضا میں بلند ہو جانا ہے۔ سبز اسپورٹس شرٹ پسینے میں شرابور اور دھوپ سے اس کا چہرہ سرخ تانبے کی طرح دہک رہا تھا۔ حاضرین میں زیادہ تعداد دانش۔۔۔دانش کے نعرے لگا رہی تھی۔
ناظرین یہ ٹارگٹ کے انتہائی قریب بالکل قریب پہنچنے والا رائیڈر نمبر ۷ سینٹ جوزف کالج آف ماڈرن ایجوکیشن کا دانش درانی اور اس کے بالکل پیچھے نمبر ۴۱ اقبال کالج نصیر آباد کا فہد امیر ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس اسپورٹس مقابلے میں ایک دوسرے کو مات دینے کی کوشش میں مصروف دانش درانی اور فہد امیر بہت تیزی سے آگے بڑح رہے ہیں“ بڑی گونجدار لاﺅڈ اسپیکر پر گراﺅنڈ کیمینیٹری جاری تھی۔ دانش درانی نے اپنی بائیک فل اسپیڈ پر لا کر بالکل یوں چھوڑ دی تھی کہ وہ ہوا میں تیرتی محسوس ہو رہی تھی ۔۔وہ فہد امیر کا سوچ کر مسکرایا اور اسی لمحے کے ہزارویں حصے میں اس کا بائیک ھینڈل نیم دائرے میں داہنی طرف یوں گھوما کہ اس نے فُل ایمرجینسی بریکس پر پاﺅں رکھ کر خود کو گرنے سے بمشکل روکا اور اسی لمحے میں فہد امیر کے لئے جیت کے گھڑیال نے گھنٹی بجا دی۔” جوش کے مارے کمینٹیٹر کی آواز لرز رہی تھی” اور فلیےگ لائین پر سے کراس کرتے ہوئے آج کی آل پاکستان نیشنل سائیکل ریس کا چیمپئین فہد امیر ہے۔ ہجوم فہد۔۔۔فہد ۔۔۔فہد کے نعروں سے گونج اُٹھا۔ وکٹری اسٹینڈ پر پہلے نمبر پر کھڑے ہو کر ٹرافی کو دونوں ہاتھوں سے کاندھے پر اونچا کئے فہد امیر نے آج خود پر سے ”رنر اپ“ کی دھول جھاڑ کر ”اپنے ساتھی کی طرف دیکھا جس نے کبھی رنر اپ ہونا سیکھا ہی نہیں تھا لیکن آج حیرت کی باری فہد امیر کی تھی ”آج جب دانش درانی اسے”گُڈ جاب یو چیمپ“ کہہ رہا تھا تو اس کی آنکھوں میں ہارنے کا غم و غصہ نہیں تھابلکہ اصل جیت کی سرشاری تھی۔ پتہ نہیں دانش درانی کس بات پر خوش تھا فہد نے سوچا۔ فہد کو کیمروں کی کلک کلک اور چینلز نے گھیر لیا۔
ہجوم میں سے گرینااسے سب سے پہلے گلے لگانے آئے۔
”گرینا میں نے ٹھیک کیا ناں!۔۔رات میں نے اسے کسی ساتھی سے یہ بات کہتے سن لیا تھا کہ دانش درانی کے پاپا نے بائسکل اسپانسرز کی ہیں تو پھر جیت بھی دانش درانی کی ہو گی۔ اور میں اپنی وکٹری پر یہ الزام ضمیر پر نہیں جھیل سکتا تھا۔
”یس سنی ۔۔تم نے ٹھیک کیا لیکن کیا تم ٹھیک ہو“؟
”اوہ گرینا آئی فیل لائک اے رئیل چیمپئین ٹُوڈے“ آج میرا دل اپنی جیت کی خوشی منا رہا ہے۔۔وہ جسے آپ کہتے تھے ۔گرینانے اس کے کاندھے پر بازو رکھ دیئے اور دونوں نے ایک ساتھ کہا ”اصل جیت“۔
No comments:
Post a Comment