Saturday, 15 June 2013

واپسی عابدہ تقی


اس چار دیواری کی اپنائیت بھری فضا اور اس میں رچی بسی مخصوص مہک گجو بھائی کی سانسوں میں ہی نہیں زندگی میں بھی گھل چکی تھی۔ اسی کی کھڑکیوں کے پار سے سنہری دھوپ کی چمک، بادلوں کی دھند اور تیز ہواﺅں کے ہاتھوں سے پھسلتی ہوئی بارشوں کے سب منظر ان کی آنکھوں پر کتنے سالوں سے اتر رہے تھے۔ ان کے ڈیسک کے بائیں جانب بڑی کھڑکی کے باہر سبز درخت اور ان کے گرد گولائی میں چنی ہوئی سرخ اینٹوں کے درمیان اگے ہوئے پھول، مناسب فاصلے پر بچھے ہوئے سنگِ مرمر کی بینچ نما نشستیں اور ان پر دن بھر غم و فکر سے آزاد طالب علم لڑکے لڑکیوں کی ٹولیاں اور ان کے قہقہے، گویا زندگی گجو بھائی کو بھرپور انداز میں یہیں ملا کرتی تھی۔ انہیں یہ بھی یاد نہیں تھا کہ کب وہ یہاں غضنفر علی سے گجو بھائی مشہور ہو گئے تھے اور اب بہت کم لوگوں کو ان کا اصل نام یاد تھا۔ لیکن انہیں یہاں کی کسی بات پر کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ یہی چاردیواری ان کی پہچان کا مضبوط حوالہ بن گئی تھی۔ بچوں کو اسکول کے لئے تیار کرتے اور انہیں ناشتہ دیتے ہوئے خرچے کے پیسوں کا مطالبہ کرتی ہوئی بیوی سے فوری جائے فرار بھی یہی جگہ تھی۔ پرانے ویسپا اسکوٹر پر بچوں کو بٹھا کر اسکول چھوڑتے ہوئے جب وہ کالج والی روڈ پر پہنچتے تو ان کے ماتھے کی شکنیں غائب ہو جاتیں اور ان کی جگہ ایک اطمینان بھری مسکراہٹ چہرے پر ابھر آتی جیسے وہ ڈیوٹی پر نہیں کسی محبوبہ سے ملنے جا رہے ہوں۔
© ©”گجو بھائی کبھی ترقی نہیں کر سکتے، لائیبریرین تھے اور لائیبریرین ہی رہیں گے“ ابھی ابھی کالج لائیبریری سے نکلتے ہوئے گروپ میں یہ آواز وقاص کی تھی۔
”ان کے ابا نے جب ان سے پوچھا ہوگا بیٹا بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ تو معلوم انہوں نے کیا کہا ہوگا“ جواد نے ہاتھ میں اٹھائی ہوئی کتابیں ہمیشہ کی طرح امین کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا تو سارا گروپ چلتے چلتے رک گیا۔
”کیا؟ سب نے کورس میں پوچھا
”لائیبریرین ابا جان“ جواد نے جھک کر کہا تو ایک قہقہ فضا میں گونجا۔
”یار مجھے تو لگتا ہے یہ پیدا ہی بطور لائیبریرین ہوئے تھے۔نرس کو پہلی بار دنیا میں آتے ہی کہا ہوگا ”دیکھوبی بی کتابیں وقت پر واپس کر دینا“ عاطف نے اپنے حصے کا مصالحہ بات کو لگا دیا۔
”اوہ مائی گاڈ عاطف spare us your extra ingredients اب تو ہنستے ہنستے منہ دکھنے لگ گیا ہے“ ماریہ کو تو ہنسی کا بس بہانہ ہی درکار ہوتا تھا۔
”یار اگر دیو آنند صاحب کو لائیبریرین کا کردار کرنا پڑے تو انہیں گجو بھائی سے ضرور مل لینا چاہئے“ شکیل کب پیچھے رہ سکتا تھا۔
”تمھار ا مطلب حلئے اور کپڑوں کی چوائس کے سلسلے میں ناں! یار اتنی فینٹاسٹک چوڑی اور لمبی ٹائیاں اور ایسی کھلی پتلونیں پہننے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔سعید نے بھی تبصرہ کر دیا۔
” میں نے پوچھا تھا ایک دن تو بولے ”حلیے کا کیا ہے عارف میاں۔ منٹو حلیے کی وجہ سے مشہور تھوڑا ہی ہوئے تھے۔ کافکا، جوائسے، ویلز، برنارڈ شا، کیٹس، ٹالسٹائی کیا پہنتے تھے کسے یاد ہے؟ ہاں کیا تخلیق کرتے تھے یہ قابلِ ذکر ہے“۔
”ویسے دیکھا جائے تو پورے حلیے میں ایک جدت ہے اور وہ ہے ان کی ناک پر رکھی ہوئی چھوٹے فریم کی عینک۔ سنا ہے وہ بھی پروفیسر عسکری نے بنوا کر دی ہے“ سب ہنس دئے اور پھر’ یُو نو گجو بھائی، یُو نو گجو بھائی‘ کی آوازیں آئیستہ آئیستہ دور ہوتی گئیں۔
انہوں نے چشمہ اتار کر اسے صاف کرنے کے بہانے کچھ دیر کو آنکھیں موند لیں۔ بند آنکھوں پر اک اک کر کے اترنے والے منظر کتنے شفاف کتنے دلکش ہوتے ہیں ذرا سی دیر میں ساری زندگی کے بیتے ہوئے لمحے کسی فلم کی طرح سامنے لے آتے ہیں۔ انہیں وہ زمانہ یاد آ گیا جب اس شہر کے اسی کالج میں وہ بطور لائیبریرین اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے آئے تھے۔ کتابوں کے بڑے بڑے شیلف کتنی محنت سے دوبارہ ترتیب دئے تھے انہوں نے اور ہر حصے کو ایک ایک نام سے بھی نوازرکھا تھا۔ ’گوشہ ¾ ادب‘، ’خانہءتاریخ‘، ’دینی کتاب گھر‘، ’کنجِ اشعار‘ ، ©زعفران زار‘، ’مرکزِ تراجم‘ ، ’بابِ سخن‘، ’جہاں نما ‘ وغیرہ اور جن موضوعات سے خود گجو بھائی کو زیادہ دلچسپی نہیں تھی ان شیلفوں پر ’کتب ہائے دیگر‘ کا لیبل لگا کر انہوں نے اس لائیبریری کو اک اپنے انداز کی دنیا میں بدل دیا تھا۔ اب تو کتابیں اور ان کا مقام ان کی انگلیوں کو بھی حفظ ہو گیا تھا۔
 لائیبریری کے اندر کا ماحول بھی گردشِ وقت کا بہترین عکاس رہا تھا۔ کبھی ان کو ٹیبل پر بیٹھے طلبا میں سے کوئی پکار کر پوچھتا تھا ” گجو بھائی کوئی اچھا سا مجموعہ کلام آیا یا نہیں؟ ”گجو بھائی انتظار حسین کے تازہ افسانوں کی کتاب مجھے ایشو کیجئے گا پہلے“ ارے گجو بھائی فیض صاحب کی شاعری پر تبصرے کی کوئی کتاب ملے گی“ اور یہ مطالبات گجو بھائی کو جوش دلاتے تھے کہ وہ تاہ ترین فہرستیں تیار کرنے لگ جاتے جسے صدیقی صاحب پرنسپل بھی منظور کر لیتے۔ لیکن وقت کے ساتھ ان آوازوں میں بھی تبدیلی آ گئی تھی ”گجو بھائی فورتھ ائیر کی لڑکیاں کب آتی ہیں لائیبریری میں“۔ گجو بھائی فرزانہ وغیرہ کا گروپ دیکھا تھا کل لائیبریری میںساتھ کون کون تھا؟ ”گجو بھائی آپ نے کبھی محبت کی ہے؟ لیکن اس تبدیلی کے باوجود بھی لائیبریری کی رونق برقرار تھی۔ لائیبریری آنے والے طلبا و طالبات کے شوقِ مطالعہ کے ساتھ ساتھ رنگینیاں بھی دیکھنے کو ملا کرتی تھیں ۔ اس وقت کے نوجوانوں کا دھڑکتے دلوں سے کتابوں میں پھول یا خط رکھ کر محبوبہ کی طرف کتاب بڑھانا اور دزدیدہ نگاہوں سے آنکھوں کے سامنے رکھی ہوئی کتاب کی آڑ سے دور کونے والی میز پر بیٹھی جانِ جاں کو چوری چوری تکنا اور پھر کسی دوست کے شانہ ہلانے پر چونک کر دوبارہ کتاب کی طرف متوجہ ہونا انہیں ابھی بھی یاد تھا۔ اکثر کتابیں لائیبریری میں واپس اندراج کے لئے آتیں تو ذومعنی اشعار بھی ان پر لکھے ہوتے ہر چند کہ کتاب پر واضح طور پر لکھا ہوتا کہ اس پر کچھ لکھنا منع ہے لیکن نوجوان نسل کے وحشی جذبوں کو کون روک سکتا تھااس وقت بھی‘
”گجو بھائی زندگی کا مزہ بھی لیا کریں ورنہ کسی دن ان کتابوں میں دب جائیں گے آپ“ اس وقت بھی تبصرے ہوتے تھے لیکن ذرا لفظوں کا چناﺅ محتاط تھا یا شائد تہذیب نے ابھی بد تہذیبی کی کروٹ نہیں بدلی تھی۔
”کیا مزہ لیں بے چارے۔ اس کے لئے تو حسنِ نظر چاہیئے جذبہءشوق بھی اور یہاں تو دونوں ہی ناپید ہیں“ وجاہت میاں پڑھائی میں لائق فائق تھے اس لئے ان کا کہا ہوا گجو بھائی کو برا نہیں لگتا تھا۔ فقط ایک دہائی کے ساتھ ہی لائیبریری کے اندر کا ماحول بھی بدل چکا تھا۔ اب کتابوں، اخباروں، رسالوں کی آڑ میں ہاتھ پکڑنے اور چھڑانے، کتابوں کے سیکشن سے نکلتے ہوئے ایکدوسرے سے ٹکرانے، گرنے اور تھامنے کے حادثے بھی لائیبریری میں ہونے لگے تھے۔ وہ گلا کھنگار کر گارڈ کے اضافی فرائض بھی سر انجام دیتے رہے اور اس کی انہیں کوئی داد دینے والا نہیں تھا۔
صدیقی صاحب کالج کے پرنسپل خود بھی ا دبی ذوق سے مالا مال اور مطالعہ کے شوقین انسان تھے اور ان کے دور میں ہی گجو بھائی کے لئے لائیبریرین ہونا ایک ایسا اعزاز تھا جس کی بدولت انہیں نہ صرف صدیقی صاحب کی قربت بھی حاصل تھی بلکہ ان کے ملاقاتیوں میں شامل تمام قابل، ذکر ہستیوں سے بھی گجو بھائی کا تعارف بھی تھا اور دوستی بھی۔ اکثر اوقات وہ نجی اور سرکاری محفلوں میںانتہائی احترام سے بلائے جاتے تھے اور صدیقی صاحب کے تعارف کرانے کا انداز بہت انوکھا تھا۔
”ضمیر صاحب ان سے ملئے بھئی یہ ہمارے کالج کے قیمتی خزانے یعنی کتابوں کے نگہدار ہیں غضنفر علی صاحب ۔کہنے کو لائیبریرین ہیں لیکن بہت صاحبِ علم انسان ہیں“۔ اور جب ایک ادارے کا سربراہ کسی کا تعارف یوں کروا رہا ہو تو ملنے والے کے دل میں اس کی توقیر اور بڑھ جاتی ہے۔ گجو بھائی صدیقی صاحب کے بہت معتقد تھے ۔ وہ واحد پرنسپل تھے جو فرائضِ منصبی میں سے کافی وقت نکال کر لائیبریری اور اس کی ترقی کے سلسلے میں پھرپور تعاون کرتے تھے۔ ان کے کالج سے چلے جانے کا صدمہ گجو بھائی کے دل میں بہت عرصہ رہا اور یہ صدمہ کم ہونے کی بجائے وقت کے پہیے کے گھومنے سے اور بھی بڑھ گیا جب خواجہ ظہور نئے پرنسپل نے انہیں پہلی ملاقات کے لئے طلب کیا ۔
”غضنفر صاحب میں نے سنا ہے آپ کی لائیبریری نے خاصی جگہ گھیر رکھی ہے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا الگ ڈیپارٹمنٹ کھولنا چاہتا ہوں اور ظاہر سی بات ہے اس کے لئے ہمیں جگہ تو بنانی ہو گی ۔ کوئی گنجائش نکل سکتی ہے؟ خواجہ صاحب نے انہیں ابھی تک بیٹھنے کو بھی نہیں کہا تھا اور اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتے کہ وائس پرنسپل کے ایک چمچہ قسم کے دوست پروفیسر نے جن کا تعلق انتظامی امور سے تھا فوراََ ایک نقشہ کھول کر پرنسپل کے سامنے پھیلا دیا۔
”سر یہ دیکھئے کالج کے پرانے نقشے میں لائیبریری صرف اتنے حصے پر بنی تھی۔ پھر اس کے ساتھ پرانے اسٹور روم کی دیوار گرا کر اس کمرے کو بھی جو ہال جتنا ہے اس میں شامل کر لیا گیا اور آج سے پانچ سال قبل یہ مین لان سے اضافی زمین کا ٹکڑا بھی لائیبریری میں شامل کر لیا گیا تھا صدیقی صاحب کے زمانے میں کیونکہ اردو ادب کے سیکشن کے لئے غضنفر صاحب کو جگہ کم پڑ رہی تھی“ انہوں نے داد طلب نظروں سے پرنسپل کو دیکھا۔
”سر میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ چل کر لائیبریری کا معائینہ کیجئے اور دیکھئے کہ اب ہماری لائیبریری کا کوئی حصہ بھی ایسا نہیں جو کتابوں سے خالی ہو۔ سر یہ جس اضافی حصے کی بات کر رہے ہیں وہ جگہ طالبعلموں کے بیٹھنے کے لئے کم تھی اس لئے اسے بڑھا کر اس میں یہ گنجائش رکھی گئی کہ اس میں اسٹوڈنٹس بیٹھ سکیں“ گجو بھائی نے مناسب انداز میں دفاع کیا۔
”کتنے لوگوں کی ایک وقت میں بیٹھ کر پڑھنے کی گنجائش ہے غضنفر صاحب اب لائیبریری میں؟
”سر اس شہر کے تمام کالجز میں یہ بات ہمارے لئے فخر کا باعث ہے کہ ہمارے ہاں تقریباََ ایک سو کے قریب طلباﺅ طالبات مطالعے کے لئے اس میں باآسانی سما سکتے ہیں“۔ غضنفر علی نے جیسے گول برابر کر دیا تھا لیکن یہاں تالیاں بجنے کی بجائے دوسرا سوال داغ دیا گیا۔
”کتنے طالب علم اب ایک ہی وقت میں وہاں آتے ہیں جو بیٹھ کر مطالعہ کرتے ہیں آجکل ؟ پرنسپل صاحب تفتیشی افسر لگ رہے تھے۔
اس سوال پر وہ بوکھلا کر رہ گئے تھے کیونکہ گزشتہ چند سالوں کے دوران لائیبریری آنے والے طلبا و طالبات کے گروہ سکڑ کر چند ٹولیوں کی شکل اختیار کر چکے تھے وہ بھی زیادہ دیر کیفے ٹیریا میں یا اوپن ائیر میں میوزک یا پھر کرکٹ گراﺅنڈ میں گزارتے تھے۔ یہاں تو وہ کتابیں ایشو کرانے آتے تھے یا واپس کرنے۔ اور اب کے سالوں میں تو لمبے بالوں اور کانوں میں بالی لٹکائے امراءکے لڑکے لڑکیوں اور No Smoking کے بورڈ کے سامنے کش لگانے والے نوجوانوں کی دوڑ اب کیٹس، ملٹن، شیلے، بائرن، غالب، فیض، میراجی سے نکل کر ملز ایند بون کے رومانی ناولوں یا ویلنٹائن ڈے کی شاعری کی تلاش تک ہی محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ بعض لڑکے لڑکیوں سے کتابیں واپس کرنے کے جتن کرنے پڑتے تھے اور کارڈز پر ان کے سائین لینے کے لئے بھی پیچھے بھاگنا پڑتا تھا۔
”او کم آن گجو بھائی ہو جائے گا۔I will take care of books“ کہہ کر لڑکے لڑکیاں غائب ہو جاتے تھے اور وہ سوچتے رہ جاتے کہ نئی پود کس طرف جا رہی ہےَ۔
”جی غضنفر صاحب اب کتنے اسٹوڈنٹس وہاں بیٹھ کر پڑھتے ہیں“ پرنسپل صاحب نے دوبارہ سوال دہرایا تو وہ اپنی سوچوں کی دنیا سے باہر نکل آئے۔
”سر ۔۔ وہ سر۔۔ کافی تعداد میں آتے جاتے رہتے ہیں سر“ انہوں نے عینک اتار کر پھر لگاتے ہوئے کہا۔
”پھر بھی کتنے؟
”زیادہ تر تو کتابیں ایشو کروا لیتے ہیں سر لیکن پھر بھی دس پندرہ تو موجود ہی ہوتے ہیں“ اتنا اٹک اٹک کر یہ تعداد بولتے ہوئے ان کے پورا وجود پسینے سے شرابور ہو گیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا اس میں ان کی کوئی غلطی تھی۔
”دس یا پندرہ۔ او۔کے۔ اب دیکھیں اتنی کم تعداد کے visitors کے لئے ایک ہال جتنی پوری جگہ کو ضائع کرنا کوئی عقلمندانہ بات نہیں۔ او۔کے۔ آپ کی بات بھی درست ہے میں کل دس بجے لائیبریری کا چکر لگاﺅں گا پھر بات کریں گے اس ایشو پر“ خواجہ صاحب نے انہیں کوئی مسکراہٹ دیئے بغیر بات ختم کر دی اور پرنسپل آفس سے لائیبریری تک کا سفر گجو بھائی کے لئے ایک لمبی مسافت بن گیا تھا۔
اس شام گجو بھائی کو بیٹی کے رشتے کے لئے آنے والوں سے بھی کوئی خاص سروکار نہیں تھا۔ ساری گفتگو کے دوران وہ خاموش ہی رہے جس کا مطلب یہی لیا گیا کہ نازو کی جدائی کا سوچ کر اداس ہیں۔ رات انہوں نے کڑھی پکوڑا کے مینو میں شامل ہونے پر بھی کسی خوشی کا اظہار نہیں کیا تھا اور بیگم جو ہونے والے داماد کی تعریفوں کے پل باندھ رہی تھیں اس پر بھی کوئی ایسا تاثر نہیں دے سکے جس سے پتہ چلتا کہ وہ اس رشتے کے آنے پر خوش ہیں یا ناخوش۔
”دیکھئے وہ تو ان کی اعلیٰ ظرفی ہے جو کہہ رہے ہیں بس بیٹی دے دیں لیکن ہمیں تو بیٹی کو خالی ہاتھ رخصت نہیں کرنا۔ کچھ نہ کچھ تو آپ کے پراویڈنٹ فنڈز سے مل جائے گا۔ میں ڈرائینگ روم اور بیڈ روم کا سارا فرنیچر دونگی نازو کو“َ بیگم کراری آواز میں بولے جا رہی تھیں۔
”اماں بجیا کو ڈائیننگ ٹیبل کا بہت شوق ہے“ چھوٹی نے کہا تو ماں کی آواز میں اور جوش آ گیا۔
”پہلی پہلی لڑکی کی شادی ہے کیوں نہیں دینگے؟ ڈائیننگ ٹیبل بھی دیں گے۔ سنتے ہیں نازو کے ابا“ بیگم نے ان کے کان کے قریب چلا کر کہا تو وہ ”ہاں خدا خیر کرے“ کہہ کر وہاں سے اٹھ گئے۔
”دیکھ لو تمھارے باپ کی حرکتیں۔ ساری عمر میری نہ سنی۔ اب اتنا اہم مسئلہ ہے بیٹی کا اور اٹھ کر چل دئے“ بیگم اولاد کے سامنے پھر باپ کی غیر ذمہ داری کی دہائی دینے لگ گئیں اور وہ سوچنے لگے۔
’ اگر اس ہال کو خالی کروا لیا گیا جو انہوں نے اور صدیقی صاحب نے کتنی محنت سے بنوایا تھا طالبعلموں میں مطالعہ کے شوق کو اجاگر کرنے کے لئے تو پھر کیا ہو گا؟ اور اگر دوسرے حصے میں پارٹیشن کروا دی تو کتابیں کہاں جائیں گی‘۔ غیر ملکی وفود تک ان کی لائیبریری کی فلمیں بنا کر لے جا چکے ہیں۔ ان کی لائیبریری کو کئی انعامات بھی مل چکے ہیں۔ پراویڈنٹ فنڈز تو ریٹائرمنٹ پر ملتے ہیں۔نازو کی ماں جلد شادی کرنا چاہتی ہے۔ ہاں جی بیٹی تو پرایا دھن ہوتی ہے کرنا تو پڑے گا کچھ۔ ’ایسے نایاب نسخے پرانی کتابوں کے اب شہر میں کہاں دستیاب ہیں جو ان کے پاس ہیں لائیبریری میں‘ کیا استعفیٰ دے دوں‘۔ ان کی سوچیں گڈ مڈ ہوتی چلی گئیں۔
”دیکھئے گجو بھائی میں آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں آپ جیسے کتاب دوست اور انسان دوست آدمی کم ہی ہوتے ہیں لیکن کچھ جیزیں وقت کی ضرورت ہوتی ہیں اور ان کا بر وقت کئے جانا ہی سب کی بھلائی کا باعث ہوتا ہے“۔ نئے پرنسپل ان کو تسلی دے رہے تھے۔
 لائیبریری کے معائنے کے دوران ہی فیصلہ ہو گیا کہ دیوار کھڑی کر کے دوحصے بنائے جائیں گے یہاں تک کہ اضافی زمین کا ٹکڑا بھی اس حصے میں شامل ہو گیا۔ ہال کے حصے میں دیوار کھڑی کر دی گئی اور ادب کی لا تعداد کتابیں حکومت کی لائیبریری کو بھجوا دی گئیں۔ گوشہ ¾ ادب سکڑ کر ایک شیلف تک محدود ہو گیا اور باقی تمام جگہ پر رکھے شیلفوں میں جدید ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کتابوں کو بھر دیا گیا۔ جہاں کبھی لائیبریری کا اک وسیع حصہ تھا اب وہاں ایک بورڈ بھی نصب ہو گیا جس پر ’ کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی“ لکھا تھا ۔ وہاں سے گزرنے پر گجو بھائی کو ایک ہی منظر دکھائی دیتا تھا چند انگریزی بولنے والے نئے چہرے اور کمپیوٹر ہی کمپیوٹر۔ یہی نہیں ایک دن کمپیوٹر ان کی لائیبریری میں بھی آن گھسا تھادو سسٹم اینالسٹ نوجوانوں کے ساتھ جو انہیں ایسے سافٹ وئیر کی تربیت دینے آئے تھے جس کے بعد لائیبریرین کا بھی زیادہ تر کام سمجھو کمپیوٹر سے ہی ہونا تھا۔
”کوئی پریشانی کی بات نہیں یہ آپ کی سہولت کے لئے ہے ۔ اس کے بعد آپ کا کارڈز اور الماریوں کے پیچھے بھاگنے والا سسٹم ختم۔ گوگل سرچ سے آپ بیٹھے بیٹھے بتا سکیں گے کہ کون سی کتاب کہاں ہے، کس کو ایشو ہوئی؟ کب واپس کی گئی وغیرہ؟ دونوں نوجوان انہیں ایک مانیٹر کے سامنے ماﺅس کے ساتھ بٹھا کر کافی دن نیاسافٹ وئیر سکھاتے رہے اور اس سے گجو بھائی کی پریشانیوں میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ ان کی اور اسسٹنٹ لائیبریرین شبیر کی دنیا میں اس نئے اضافے کی کوئی ضرورت نہیں تھی‘ وہ اکثر سوچتے لیکن کچھ کر نہیں سکتے تھے۔
”گجو بھائی آپ نے تو کالج کے بہت زمانے دیکھے ہیں بتائیں سب سے اچھا دور کون سا تھا“ سیاست ہردور کے طلبا کا من پسند موضوع تھا اور یہاں بھی کسی پروفیسر کی الوداعی تقریب میں یہ بحث زور و شور سے جاری تھی اور اسٹوڈنٹس نے انہیں دیکھ کر سوچا کہ ان کی رائے لی جائے۔
”سب سے اچھا دور کتاب سے محبت کا دور تھا “ ان کے جواب پر محفل میں خامشی چھا گئی۔ کچھ پروفیسر صاحبان نے سر ہلایا اور کچھ مزید خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے اور گجو بھائی کے ساتھ کوئی کمپیوٹر سافٹ وئیر اسپیشلسٹ اپنی بیرون ملک سے حاصل کی گئی ڈگریوں کی اہمیت پر زور دینے لگ گئے۔ کچھ لڑکے ویب سائیٹ کے فوائد پر بحث کرتے رہے اور گجو اس بات سے دکھی ہوتے رہے کہ ان ساری ٹولیوں میں کوئی بھی کتاب کی بات نہیں کر رہا تھا۔
اس دن لائیبریری کی خاموش فضا میں کچھ رونق دکھائی دی۔ فائینل ائیر کا وہ پٹاخہ سا گروپ جو پاپ میوزک کے علاوہ کسی طرف مائل نہ تھا لائیبریری میںآن دھمکا۔ پہروں خالی پڑی رہنے والی لائیبریری میں ان کا آنا بھی غنیمت تھا لیکن اس سے زیادہ حیران کن ان لوگوں کا سنجیدگی سے کچھ میگزین لے کر خاموش بیٹھ کر پڑھناتھا۔ ابھی وہ اس پر مزید غور کرتے کہ پرنسپل نے کچھ مصنفین کی کتابیں فوری طور پر چیک کرکے انہیں بھجوانے کا کہلا بھیجا اور یوں انہیں اپنے من پسند گوشہءادب تک جانا پڑا۔ لیکن یہ کیا؟ وہ ٹھٹھک گئے۔ پاﺅں گویا زمین میں گڑ کر رہ گئے۔ یہ یہاں کیا دیکھ رہی تھیں ان کی آنکھیں؟ کیا یہ دیکھنا باقی رہ گیا تھا اس مقدس چاردیواری میں۔فکشن اور شاعری کی بڑی بڑی الماریوں کے درمیان ایکدوسرے کی بانہوں میں محبت کا کھیل کھیلتے ہوئے اسی پاپ گروپ کا ایک جوڑا ۔ گجو بھائی کو اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا ۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ اس طرح پکڑے جانے پر بھی کوئی شرمندگی نہیں تھی بلکہ نکلتے ہوئے ان کا ڈھٹائی سے’ No privacy anywhere “ کہہ کر وہاں سے نکلنا تہذیب کے نقطہءانجماد کی انتہا تھی۔ گجو بھائی اپنی سیٹ پر آئے تو گروپ جا چکا تھا اور ان کی سیٹ پر ایک چٹ پڑی تھی جس پر دھمکی نما جملے تھے اس طرح درج تھے۔ گجو بھائی
Keep your mouth shut or you would bear the consequences“ اورغصے سے ان کا چہرہ تمتما اٹھا۔ انہیں پرنسپل صاحب کو فوری طور پر بتانا ہوگا۔ یہ سوچ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
”غضنفر صاحب میں ان لڑکے لڑکیوں کو بلا کر ان کی سرزنش نہیں کرسکتا وہ اس شہر کے رئیسوں کے بچے ہیں اور آپ نے نہیں لیکن میں نے ابھی سروس کرنی ہے“۔ پرنسپل قاسم نیازی صاحب کا اس شہر میں ٹرانسفر بھی تو انہی رئیسوں میں سے کسی ایک کی سفارش پر ہوا تھا اور وہ مجبور تھے لیکن گجو بھائی بھی مجبور تھے کیونکہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اس چاردیواری کا تقدس مجروح ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اور فیصلے کی گھڑی بھی شائد یہی تھی یعنی اپنی اس چاردیواری کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہنا۔’ ہر سفر کے اختتام پر واپسی کا سندیسہ تو رکھا ہوتا ہے چاہے لوٹ کر جانا کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو‘ انہوں نے دکھ سے سوچا۔
نئے لائبریرین کو لائیبریری کا ریکارڈ اور چابیاں سونپنے کے بعد وہ گوشہءادب میں آخری بار آئے۔ آخری بار کنجِ اشعار کی مہک کو سانسوں میں اتارا اور ایک ایک کتاب کو انگلیوں سے ایسے چھوا جیسے وہ الہامی کتابیں تھیں اور اس سے قبل کہ وہاں سے نکلتے یا آگے بڑھتے کہ وہ پیچھے سے اپنا نام پکارے جانے پر مڑے تو منٹو کھڑے ان سے مخاطب تھے۔
”آپ دل چھوٹا نہ کریں گجو بھائی ۔ آپ اکیلے نہیں جا رہے ہم سب آپ کے ساتھ ہی یہاں سے جا رہے ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ رہے اتنا عرصہ اب ہم آپ کے ساتھ رہیں گے۔“ یکایک فیض، دانش، غالب۔ میر، سودا، منٹو ،سب کی آوازیں اس میں شامل ہو گئیں۔
”میرے ساتھ مگر کہاں؟ وہ حیرت زدہ سے تھے۔
 ” ہم الماریوں میں کب رہتے ہیں گجو بھائی ہم تو یوں بھی اپنے قدر دانوں کے دل میں رہتے ہیںاب آپ کے دل
 میںرہیں گے “ سب ہستیوں نے یک زبان ہو کر کہا تو مارے خوشی کے ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ اب گھر واپسی کے سفر میں ان کے قدم بوجھل نہیں رہے تھے کیونکہ وہ اس چاردیواری کو چھوڑ کر نہیں اس کی ساری رونق کو ساتھ لئے جا رہے تھے۔

No comments:

Post a Comment