کلُوری (افسانہ) عابدہ تقی
اُٹھ مردار حمیدہ۔۔۔مر جائے تُو۔۔ کھوتے کہوڑے (گدھے گھوڑے) بیچ کے سوئی پڑی رہتی ہے“۔ شیداں نے چھوٹی سی حمیدہ کو جھنجھوڑ کر ہلایا تو وہ آنکھیں ملتی ہوئی اٹھ بیٹھی۔
”کیا ہے اماں؟ اس کے لڑکپن کی نیندسے اس کی آنکھ کا خود کھلنا تو ممکن نہیں تھا تو پھر گھر میں صبح اس کی یہی درگت بنتی تھی کیونکہ وہ دس سال کی ہی سہی چار بہن بھائیوں میں بڑی تھی ۔ کبھی کاکے کو گود میں لینے کے لئے تا کہ ماں اس کے ابا اور بے بے کے لئے ناشتہ بنائے اور کبھی کسی بہن بھائی کو سنبھالنے کے لئے۔ اب تو ایک مصیبت اس سے بھی بڑی تھی۔ حکومت کے بجلی کے بعد پانی کے ادارے نے بھی راشن بندی کر دی تھی۔ ہر روز اخباروں اور ٹی وی چینلز پر رپورٹیں آتیں کہ ڈیم میں پانی کا لیول کتنا کم ہو گیا ہے اور شہریوں کے استعمال کے لئے اسے جاری رکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کی راشن بندی کی جائے۔ یوں حکومت تو فیصلہ سنا کر مطمئن ہو گئی کہ گھروں
کے نلکوں میں پانی ایک دن آئے گا اور اک دن نہیں آئے گا۔ البتہ کمیٹی کا نلکا جو باہر عام استعمال کے لئے لگا تھا اس میں پانی آتا تھا لیکن اس میں بھی پانی آنے کا کوئی وقت مقرر نہیں تھا۔ واسا والوں کا جب جی چاہتا تھا پانی کھولتے تھے ۔ اس کے محلے کی سب ہم عمر لڑکے لڑکیوں کا کام یہی تھا کہ صبح سب سے پہلے اپنی اپنی بالٹیاں یا ڈول لے کر قطار میں سب سے پہلے جا کر رکھ دیتے اور کچھ بچے پانی حاصل کرنے میں لڑ جھگڑ کر کامیاب ہو جاتے کیونکہ پانی آئیستہ آئیستہ آنا شروع ہوتا اور دو یا تین بالٹیوں کے بھرنے کے بعد دم توڑ دیتا ۔ اس کام میں کئی بار وہ پینو، عذرا، عنیتاں اور کلثوم سے لڑائی کر چکی تھی۔ اس دن تو اس کی بالٹی سب سے پہلی تھی اورابھی وہ پوری بھری بھی نہیں تھی کہ پینو نے کھینچ کے پرے کر دی۔ بس پھر کیا تھا دونوں نے ایک دوسرے کے بال نوچے، ناخن مارے اور یوں باقی لڑکیوں اور لڑکوں نے
موقع کا فائدہ اٹھاتے ہی ان کی بالٹیاں اور پیچھے کھسکا دیں۔ آدھی چھل چھل کرتی بالٹی لے کر جب وہ گھر پہنچی تو اماں تک خبر پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔۔ اسے ماں سے بھی دو گھونسے کھانے پڑے ۔
” مرنے جوگی تجھے سمجھایا ہے کتنی بار۔۔ پانی کی بالٹیاں بھر کر آواز دے دیا کر مجھے‘ اب سارے برتن گندے ہیں، کپڑوں کی دھلائی الگ رکھی ہے اس پر ہانڈی روٹی کا سیاپا (بکھیڑا)۔ چل دفع ہو تجھ سے کوئی کم نہیں ہوتا۔ “ یا اللہ ان کمیٹی والوں کو پوچھ یا اللہ ان یزیدوں سے حساب لے جو بوند بوند پانی کے لئے ترساتے ہیں۔ لیڈر بنے پھرتے ہیں اور عوام کے دکھوں کی کوئی خبر نہیں“۔ ماں اسے ڈانٹ کرکمیٹی والوں اور حکومتی پارٹی والوں کو بد دعائیں دینا شروع ہو جاتی اور وہ کونے میں بیٹھ کر تھوڑی دیر روتی رہتی اور پھر سہیلیوں کے آواز دینے پر ”اماں میں آئی“ کہہ کر چھوٹے بہن بھائیوں کو لے کر سامنے خالی پلاٹ میں جسے سب بچوں نے اپنا پارک بنا رکھا تھا کھیلنے چلی جاتی۔
کہنے کو ان کی بستی ”فاروق پور“، شہر کا حصہ تھی لیکن بس نام کا ہی۔ پکی اینٹوں کے چھوٹے چھوٹے آمنے سامنے مکانوں کی قطاروں کے درمیان سے گزرتی ہوئی تنگ پکی گلی جسے ٹیکسی، رکشہ، چھوٹی ویگنوںاورموٹر سائکل والوں نے تو باقاعدہ بڑی سڑک سمجھ رکھا تھا کیونکہ دو بڑی شاہراہ تک جلدی پہنچنے میں یہ تنگ گلی شارٹ کٹ کا کام دیتی تھی۔ اسی لئے بظاہر اس پکی گلی میں جگہ جگہ گڑھے پڑ گئے تھے جن میں بارش کے بعد کئی دنوں تک پانی جمع رہتا تھا۔ رہائشی لوگ زیادہ تر موٹر میکنیک تھے یافیکٹریوں کے مزدور، کچھ پڑھے لکھے نچلے درجے کے ملازم پیشہ افراد بھی یہاں آباد تھے اور وہ بھی جن کے گھروں کے مرد کمانے کے لئے دوبئی یا مشرقِ وسطیٰ کے دوسرے ملکوں میں کام کے لئے گئے ہوئے تھے۔ بچوں کو اسکول بھیجنے کے بعد عورتیں ریڑھی والے سے سبزی خریدنے کے بہانے اپنے دکھڑے بھی رو لیتیں اور پڑوسنوں کی دعوت پر ” آﺅ ناں بہن تھوڑی دیر بیٹھتے ہیں“ پر ایک دوسرے کے گھروں میں بیٹھ کر سبزی کے بڑھتے ہوئے داموں سے لے کر سیاسی ابتری تک اور ٹی وی پر دکھائے جانے والی کسی مظلوم عورت کی داستان پر کافی آہیں اور آنسو ایک دوسرے سے بانٹ لیتی تھیں۔
رشیداں بھی اسی بستی میں اپنے چار بچوں کے ساتھ چھوٹے سے گھرمیں جو ایک کمرے ، چھوٹے سے باورچی خانے اور غسل خانے پر مشتمل تھا رہتی تھی۔ بچوں کی بے بے کی منجی برآمدے میں لگائی ہوئی تھی اور بارش دھوپ سے بچا ¾و کے لئے چِک نے دیوار کا کام سنبھال رکھا تھا ”بے بے کہتی تھی اس کا فائدہ ہے۔شام کو چِک اٹھا کر صحن سے کھلا آسمان اور تازہ ہوا کا مزہ لے سکتے تھے بالکل ایسے جیسے وہ گا ¾وں میں لیتی تھیں حالانکہ یہ صحن ان کے تو تین ڈگ بھرنے کے بعد باہر کے دروازے پر جا کر ختم ہو جاتا تھا لیکن پھر بھی انہیں یہ گاﺅں کی یاد دلاتا تھا۔ اللہ رکھے یہ گھر بھی تب ہی بن سکا تھا جب ظہور احمد اس کا لاڈلا پُتر،رشیداں کا میاں کچھ عرصے کے لئے دوبئی گیا تھا لیکن پھر دوبئی کی بڑی بڑی عمارتیں جب بن کر آسمانوں کو چھونے لگیں تو یہی مزدور عربوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے۔ بس پھر دھڑا دھڑ لوگ مزدوری سے فارغ ہو کر واپس آنے لگے۔ ظہور نے باہر رہ کر ایک کام اچھا کیا تھا وہ یہ کہ ڈرایﺅری سیکھ لی تھی اور اب وہ کسی دفتر میں ڈرائیور لگ گیا تھا جہاں
سے اسے تنخواہ عربی ریالوں میں تو نہیں ملتی تھی لیکن پاکستانی روپوں میں اتنی مل جاتی تھی کہ وہ اور اس کی بیوی اخراجات کی مّدوںپر سارا مہینہ جھگڑ سکیں اور اس کی بیوی کمیٹیاں ڈالنے کا خواب دیکھتی رہے کچھ پیسے بچانے کے لئے تا کہ آڑے وقت میں کام آ سکیں۔ لیکن ظہور احمد کو ایک ترکیب سوجھ گئی تھی۔
بستی کے پیچھے جہاں دریا ئی نالہ بہتا تھا وہاں بھینسوں والوںکا ڈیرا بھی تھا وہیں سے گاماں دَودھی انہیں دودھ دینے آتا تھا۔ ظہور احمد نے بے بے کے مشورے کے مطابق اس سے بزنس کی بات کر کے ایک بھینس خرید کر اس کے گلے میں شامل کر دینے کی تجویز پیش کی تا کہ کچھ کمائی آ جایا کرے۔ لیکن گامے کی شرطیں کڑی تھیں۔
”بھر ا (بھائی) ظہور جانور رکھنا کوئی کھیل نہیں ہے وڈا جگرے والا کم اے میڈا بھرا! چارہ پٹھے ،کھلی چوکر، گوبر گند سنبھالنا اور جانوروں کو بیماری سے بچانے کا خیال رکھنا، میں دوسرے کے جانور کی یہ ذمہ داری نہیں لے سکتا بھرا“۔ گاماں پہلے تو صاف مکر گیا۔ لیکن جب ظہور نے وعدہ کیا کہ پہلی کٹی(بچھیا) وہ گاماں کو دے گا تو پھر گامے کی سوچ بدل گئی۔ لیکن ظہور کو اس نے صاف بتا دیا۔
”اور ہاں دودھ کا حساب روز کا روز ہو گا میں مہینے کا ووعدہ نہیں کرتا مجھے حساب کتاب کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جتنا دودھ روز بکے گا تمھارے جانور کا، اتنے کے پیسے آ کر روز لے لینا ۔ پر ویکھ بھرا جی! اپنے جانور کی دیکھ بھال میں میرا ہاتھ بٹانا پڑے گا “ گامے کا یہ کہا ہوا بھی مان لیا گیا۔
”چل بھائی میں اور میری بیوی خود کر لیں گے اپنی بھینس کا کام“ اس نے کہا تو اندر کپڑے تہہ کرتی رشیداں کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اس کے اور تھوڑے بکھیڑے ہیں کہ وہ بھینس کا کام بھی کرے گی“ اس نے ظہور سے خوب لڑائی کی۔
”او نیک بختے ہر وقت اوپر کی کمائی، اوپر کی کمائی کی رٹ لگائے رکھتی ہے۔ بے ایمانی تو مجھ سے ہوتی نہیں ۔ اضافی آمدنی کا یہی طریقہ یہی مجھے سمجھ میں آیا ہے۔ میں خود کر لوں گا یہ کام ڈیوٹی سے واپس آکر۔ تجھے کون کہتا ہے کہ تُو کر“ ظہور نے کہا تو وہ خاموش ہو گئی ۔ چار بچوں کا باپ ہو کر بھی بات بے بے کی ہی مانتا ہے‘ وہ کُڑھنے لگی۔ خدا پوچھے اس گامے کو بھئی انکار کر دیتا تو اس کا کیا جاتا اور بے بے کا تو مغز ہی گھوم گیا ہے‘ وہ بچوں کو مار پیٹ کر کام بھی کرتی رہی اور غصہ بھی اتارتی رہی۔ لیکن جب گامے کی باڑ میں وہ سب لوگ اپنی بھینس دیکھنے گئے تو ر شیداں یہ سن کر ہی اس پر عاشق ہو گئی کہ وہ کلورکوٹ سے لائی گئی ہے۔ اس کی کالی چمکتی کھال، پیشانی پر ایک سفید دھبہ ، موٹے موٹے سینگ، چمک دار آنکھیں وہ بہت معصوم جانور لگی اسے۔ ” اس کا نام ”کلوری“ رکھوں گی میں“ اس نے اعلان کر دیا۔
”چھوٹی عمر کی مج (بھینس) ہے بھرجائی ابھی تو بڑا عرصہ دودھ دے گی اور پھر ایک تھوڑی ہی رہے گی۔ اس کی نسل بڑھے گی تو کٹیاں(بچھڑیاں) ہی دے گی ڈبل فائدہ ہو گا۔ رکھنا ہوا تو کٹیاں رکھ لینا نہیں تو بیچ دینا۔ یہ تو حلالی رزق ہے بھرجائی“ گاماں اور اس کی گھر والی نے خالص دودھ پلا کر ان کی خوب مہمان نوازی کی اور بچے بھی ”کلوری“ سے خوش ہو گئے۔ رشیداں اور ظہورنے وقت کی تقسیم کر لی تھی۔ کچھ وقت کلوری کے لئے روزانہ دونوں نکال لیتے تھے لیکن رفتہ رفتہ محنت طلب کام رشیداں کے ہی حصے میں آیاتھا۔
کلوری اسے کچھ ہی دنوں میں بہت عزیز ہو گئی تھی۔ جب رشیداں اس کی صفائی ستھرائی کرنے اور کھانا کھلانے جاتی تو وہ سر اٹھا کر ”آں۔ ۔ آں ۔۔۔کی آوازیں نکال کر اس کا استقبال کرتی اور اسے یوں تکتی جیسے وہ انتظار کر رہی تھی۔ کبھی رشیداں بیمار ہوتی تو لگتا کہ وہ اپنی خاموش زبان سے اس کا حال پوچھ رہی ہے اور کبھی جب وہ اس کی پشت پر پیار سے ہاتھ پھیر کر پوچھتی ” کیوں کلُوری گھر لے جا ¾وں تجھے“ تو اسے لگتا وہ صاف انکار کر رہی ہے یہ کہہ کر کہ وہ یہاں اپنے ساتھیوں میں خوش ہے۔ اس نے یہ بات ظہور سے کہی تو وہ ہنس پڑا۔
”تیرے دماغ کی کمزوری ہے نیک بختے بادام کا تیل مالش کروایا کر سر میں“۔ اس نے یہی جواب دینا تھا۔
”ہاں مگر بے زبان بھی تو ایک دوسرے سے دکھ درد کہتے ہیں ناں۔ مجھے لگتا ہے کلُوری مجھ سے باتیں کرتی ہے“ اس نے کہا تو ظہور ہنس دیا۔
” کہاں اس کے لانے کے خیال سے ہی تجھے دورے پڑنے لگے تھے اور کہاں اب وہ تیرے میکے کلورکوٹ سے تیری سہیلی نکل آئی ہے۔ لو جی مجھ سے باتیں کرتی ہے۔۔۔ جھلی ہے تُو“ ظہور ہنس دیا اور وہ چُپ ہو گئی۔
”ہائے میں نے سنا ہے اللہ رکھے تم نے مج پال لی ہے شیداں“ وہ دروازے سے باہر چھان بورے والے کی آواز سن کر نکلی ہی تھی کہ پڑوسن نے آ لیا۔
”ہاں باجی آپ کو تو معلوم ہے ناں مہنگائی کا دور ہے اور ایمانداری سے سفید پوش آدمی روز گھر کا خرچہ کیسے چلائے۔ کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے“۔ اس نے کہا ”اے بھائی چھان بورے والے بس ایک کلو باسی روٹیاں کافی ہیں اور کیوں ڈال رہا ہے ترکڑی (ترازو) میں“ اس نے چھان بورے والے سے کہا تو سامنے والی راجیانی بھی دروازے پر آ گئی۔
”ہائے ہائے باسی روٹیاں کس لئے لے رہی ہو شیداں؟ کیا ظہور کو مارنا ہے یا ساس کو“؟ راجیانی کبھی بھی طننز کے علاوہ بات نہیں کر سکتی تھی۔
”راجیانی صاحبہ آپ کو نئیں پتا شیداں نے مج (بھینس) لے لی ہے ناں۔۔ بھئی فائدہ ہی فائدہ۔ گھر کا خالص دودھ بھی اور آمدنی بھی“ برابر والی نے یہ خبر شیداں کی طرف سے ان کو سنائی تو وہ بولیں۔
”کمی کمینوں والا کام ہے۔ ہمارے گراں (گاﺅں) میں کمی کمیاری یہ گائے بھینسیں سنبھالنے کا کام کرتے ہیں“۔ ویسے شیداں ہے تو بڑی میسی بتا دیتی تو ہم بھی خالص دودھ تجھ سے خرید لیتے۔ گاماں تو نالے کا پانی گاگر بھر کر ڈالتا ہے ملائی بھی نہیں جمتی دودھ پر“۔ انہوں نے حسرت سے آہ بھری۔
”میرا تو اس میں کوئی دخل نہیں۔ بچوں کے ابا نے ہی یہ سوچا ہے بچوں کے لئے“ اس نے بات ختم کرنی چاہی۔
”سنو رکھی کہاں ہے تم نے اپنی بھینس؟ گامے سے ہشیار رہنا وہ بیچ دے گا اور کہے گا کِلے سے کھل کر چلی گئی رات کو۔ ہی ہی ہی۔۔۔ گاماں آخر کو ہے ناں گوالہ۔“۔ راجیانی نے ایسی بات کی کہ شیداں کا دل دھک سے رہ گیا۔
جھوٹے لارے۔۔۔ مچھیاں کٹارے
مچھی گئی پانی۔۔۔ اگوں ملی نانی
نانی پکائیاں روٹیاں ۔۔۔ کھا ککڑے دیاں بوٹیاں
سامنے حمیدہ کھیل رہی تھی۔ لڑکیوں کی ہنسی کی آوازیں اور کھیل کود کے یہ گیت سننے میں اچھے لگتے تھے۔ شیداں کو ان کے کھیل پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ بچے تو سنبھالے رکھتی تھی حمیدہ اور یوں وہ گھر کا کام ختم کر کے کلوری کو بھی دیکھنے چلی جاتی۔ اپنے بچوں سے اتنے لاڈ نہیں کرتی تھی رشیداں جتنا وہ کلوری کا خیال کرتی تھی۔ بلکہ ماں کو ”کلوری“ کے اتنے نخرے اٹھاتے دیکھ کر حمیدہ کے دل میں خیال آتا کہ کاش وہ ”کلوری“ ہوتی۔
”حمیدہ چل گھر واپس آجا تیرے ابا آتے ہی ہوں گے“۔ حمیدہ کو آواز دے کر وہ اندر چلی گئی۔
”حمیدہ کے ابا! رات سونے سے پہلے اسے یاد آیا کہ یہ بات جو اس کے کلیجے سے چمٹ گئی تھی راجیانی والی وہ ظہورے سے کر لینی چاہیئے۔
”اب کیا ہے نیک بخت؟ ذرا سا گہری نیند میں جانے لگتا ہوں تو پٹ مارتی ہے“ ظہور جھنجھلایا ہوا تھا۔
” راجیانی کہہ رہتی تھی کہ۔۔۔۔ اس نے پوری بات میاں کو سنا دی۔
”اوئے ایسے نہیں ہوتا۔ گاماں اور سارے دَودھی اگر ایسا کرنے لگ جائیں تو ان کا کاروبار نہیں چل سکتا۔ ساکھ ہے ان کی مدتوں کی تب ہی تو لوگ ان سے ایسا بزنس کر لیتے ہیں اور ہماری ایک بھینس کو بھگا کر یا بیچ کر اسے کتنا فائدہ ہو جائے گا؟ چپ کر کے سو جا“۔ اس نے کروٹ بدل لی۔
”باسی روٹیاں اور چوکر اپنی کلوری کے لئے بھگو دیا تھا“ نیند میں ڈوبے ہوئے ظہور کو کلوری کا خیال آیا۔
”نہیں گامے کی بیوی کے ساتھ ہی بھگوتی ہوں صبح“ شیداں بھی بدن کے درد اور نیند سے بے حال تھی ۔
”ہیں یہ کیا کہہ رہی ہیں اکبری تائی؟ وہ خوشی سے جھوم گئی آپ کو کس نے بتایا۔ دَودھیوں کے محلے سے اکبری تائی یہ خبر لائی تھی۔
”مجھے کون بتائے۔ سارا وقت میرا بھینسوں میں گزرتا ہے۔ میں تو دیکھ کر پہچان لیتی ہوں کہ کون سی بھینس اب کَٹی وچھی دینے والی ہے“۔ اکبری تائی نے ہی بتایا تھا کہ کُلوری کے ہاں خوش خبری ہے۔ اور رشیداں ساس کو بتانے چل دی۔
”اللہ کے کام ہیں نی دھیے شکر ہے اللہ پاک کا۔ درخت کو پھل تو وہی لگاتا ہے ناں سوہنڑا رب“۔بے بے شکر کی تسبیح پڑھنے لگ گئیں۔
”بے بے آپ دعا کریں کہ کَٹی ہی پیدا ہو میری کُلوری کی“ وہ نہال ہوئے جا رہی تھی۔ ظہور کو پتہ چلا تو وہ بھی مسکرانے لگ گیا۔
””رشیداں فکر نہ کر۔ بے بے بچے سنبھالے رکھتی ہے اور پھر ہماری حمیدہ بھی سیانی ہو رہی ہے۔ ایسا کر حمیدہ کو اب گھر کے کاموں پر لگا۔ یہی وقت ہے اس کے سیکھنے کا۔ تُو زیادہ وقت کُلوری کے ساتھ رہنا“ ظہور کے خیالات سے وہ متفق ہو گئی۔
”بھرجائی مبارک تھیوے تہاں کوُں ۔ اللہ کرے کٹّی چاہ آوے“ (بھابی مبارک ہو آپ کو اللہ کرے اس کی بچھیا ہی آئے)گامے کی بیوی نے کلوری کے لئے نیک جذبات کا اظہار کیا اور پھر رشیداں کو سمجھانے بیٹھ گئی کہ بھینس کا اب خیال کیسے رکھنا ہے۔
بے بے کی دعا اپنے وقت پر قبول ہو گئی۔ کلُوری کی کٹّی (بچھیا) ہوئی تھی۔ ظہور اور شیداں خوش تھے۔ بچھیا کا نام ”نِکی“ یعنی چھوٹی رکھ دیا تھا انہوں نے اور وہ جب ماں کے پیچھے پیچھے چلتی تو یہ نظارہ رشیداں کو بہت اچھا لگتا۔
حمیدہ کو بھی اب پانی بھرنے نلکے پر جانا اچھا لگتا تھا۔ سب لڑکیاں اس سے کُلوری کی بچھیا کی باتیں سنتی تھیں اور اس کی سہیلیاں بن گئی تھیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوا تھا کہ وہ سب پانی آنے پر پہلے حمیدہ کی بالٹیاں بھرواتیں پھر کسی اور کی اور ظاہر ہے حمیدہ کی خوشی کا تو عالم ہی کچھ اور تھا۔
ظہُور! او میرا سوہنڑا پُتر ظہور،! ٹی۔ وی کی آواز تو مٹھی (دھیمی) کر دے میرا بچہ“ بے بے کی آواز پر ظہور نے اٹھ کر ٹی۔وی کی آواز کم کی اور اٹھ کر اماں کے پاس چلا آیا۔
”بے بے موسمیات والے بتا رہے ہیں کہ اگلے ہفتے بارشیں شروع ہو جائیں گی پھر پانی کی کمی نہیں رہے گی“۔ وہ بے بے کے پا ¾وں دبانے لگا۔
”اوئے پُتر انہیں کیا پتا شوہدوں کو کہ بادل تو اللہ پاک کی مرضی سے آتا ہے۔ دعا کر شالا خیر ہووے “۔ بے بے متواتر فکر مند تھیں۔
”ہاں اماں بس یہ ہو ناں کہ ڈیم بھر جائیں اور نلکوں میں پانی آنے لگ جائے“ ظہور کو پانی کی قلت کا شدت سے احساس تھا۔
”بیٹا حکومت چاہے شیروالوں کی ہو کہ پپلیوں کی انہاں توں چنگا کم کوئی نئیں ہونڑا۔ ناں بجلی نہ پانڑی۔ سارا دن میری پوتی پانی کے پیچھے دھوپ میں جلتی رہتی ہے“۔ اماں نے دکھ سے کہا۔
”ہاں بے بے!حمیدہ بے چاری پر یہ بوجھ بہت ہے۔ اسکول جانے سے پہلے بھی پانی بھر کر لائے اور اسکول سے آ کر بھی پانی کے پھیرے کرے۔ مجھے بڑا ترس آتا ہے اپنی بیٹی پر“ ظہور کے لہجے میں دکھ کے ساتھ بے بسی تھی۔
”بیٹا گھر میں ایک کھُوہ (کنواں) کیوں نئیں کھدوا لیتا۔ اپنے پانی میں برکت ہوتی ہے“ بے بے بھی کسی کیسی ترکیبیں سوچتی تھیں۔ جواب میں ظہور یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس چھوٹے سے گھر میں جہاں صحن نام کی کوئی چیز ہی نہیں وہ کنواں کہاں کھدوائے اور یہ بورنگ تو پیسے والوں کا کام تھا۔۔ وہ اماں پر کھیس اچھی طرح اوڑھا کر کمرے میں واپس آ گیا۔
”بچے سو گئے؟ اس نے پلنگ پر نیم دراز بیوی سے پوچھا۔
”ہاں“ جواب ذرا بیزاری سے دیا گیا۔
”رشیدا کیا بات ہے؟ بہت تھک گئی ہے آج“ اس نے محبت سے ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔
”آج۔۔۔ تھکنا تو روز کا ہی دکھڑا ہے۔۔ گھر کا کام، بچوں کی دیکھ بھال اور کلوری اور کٹی، کام عذاب ہی بنتا جا رہا ہے“۔ شیداں نے دل کی بھڑاس نکال دی۔
”میری جندڑی کل سے آدھے کام میں دیکھ لیا کروں گا تو فکر نہ کر ۔ ان سارے مہینوں میں دودھ سے جو کمائی ہوئی ہے ناں وہ خرچ نہیں کی میں نے۔ تُو جو کہے گی تجھے لے دوں گا“۔ وہ پیار سے بولا تو رشیداں کی تھکن ایکدم غائب ہو گئی۔ اس نے کروٹ بدل کر ظہور کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا۔
”اماں باہر نلکے میں پانی بڑا تیز آ رہا ہے اور رش بھی نہیں ہے۔ لا بالٹیاں دے میں بھر لاﺅں“۔ حمیدہ نے ماں سے کہا۔
”حمیدہ! پتر تُو جا ذرا کلُوری کے پیچھے کیونکہ ”نِکی“ بیمار ہے۔ ادھر ہی رہنا جب تک ڈاکٹر آ نہ جائے۔ خود سامنے دوائی پلوانا اچھا ۔ پانی میں خود ہی لے آتی ہوں“۔ شیداں نے بالٹی اٹھالی۔
شام ہو چکی تھی تیز بارش جو رات سے شروع ہوئی تھی رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ظہور کے گھر آنے کا وقت ہو چکا تھا اور حمیدہ ابھی تک نہیں لوٹی تھی کُلوری کے پاس سے‘ اسے فکر ہونے لگ گئی۔ لاکھ چھوٹی سہی، ہے تو دھی کی ذات اور جوان ہو رہی ہے ‘ ۔ اسے فکر نے آن گھیرا۔
”بے بے میں جاتی ہوں ذرا حمیدہ کو لے آﺅں اور کلوری کی نکی کو بھی دیکھ آﺅں“ یہ کہتے ہوئے صحن میں فٹ فُٹ کھڑے پانی کو شیداں حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔ ’یہ کہاں سے آ ئے جا رہا ہے اور پھر گلی کا دروازہ کھولتے ہی باہر کے منظر سے گھبرا کر چیخ پڑی۔۔۔ظہور۔۔۔ ۔۔حمیدہ۔۔۔بے بے۔۔۔ اس کی چیخیں سارے گھر میں گونج رہی تھیں۔ ظہور گھٹنے گھٹنے پانی میں مشکل سے چلتا ہوا پہنچا تھا۔
” چلو جلدی نکلو ، جلدی کرو۔۔بڑا دریا چڑھ گیا ہے۔۔مسجدوں سے بستی خالی کرنے کا اعلان ہو رہا ہے“۔
”ہائے میری حمیدہ۔۔ گلی میں آ کر جو شیداں نے مُڑ کر دیکھا تو گوالوں کے ڈیرے کی طرف دریا ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ ہر طرف شور ہی شور تھا۔ پانی کے شور کے ساتھ جانیں بچا کر نکلنے والوں کا شور۔۔ہر طرف ایک محشر بپا تھا۔
” ظہور! میری بچی۔۔ میری حمیدہ۔۔ پانی کمر کمر تک چڑھ آیا تھا۔ وہ روئے چلی جا رہی تھی۔ ”ظہور! کلوری کی نکی بیمار تھی میں نے حمیدہ کو ادھر بھیج دیا تھا۔ ہائے ۔میں نئیں جاتی حمیدہ کے بغیر“۔ رشیداں چلتے چلتے رُک گئی۔ بستی والے لڑکوں نے اور ظہور نے مشکل سے پکڑ کر اسے تھاما۔
” چلو نیک بخت میں اسے بھی لے آﺅں گا“۔ ظہور نے بے بے کو کندھے پر اٹھا رکھا تھا۔ دو بچوں کو سامنے والوں کے لڑکوں نے اپنے اپنے کندھے پر بٹھا لیا تھا۔سہمے ہوئے بچے کبھی پانی کو اور کبھی اپنے بڑوں کو دیکھ کر اونچی آوازوں میں رو رہے تھے۔۔ لڑکوں اور مردوں نے ایک رسی سب کو تھما دی تھی اور سب اسے پکڑ پکڑ کر آگے کی طرف بڑھ رہے تھے ۔پانی کی ایک لہر دوسری سے بھی زیادہ زور دار آتی تو ان کے پاﺅں اکھڑ اکھڑ جاتے لیکن۔۔”ہائے حمیدہ۔۔۔ ہائے حمیدہ“ کرتی روتی دھوتی شیداں آپنے آپ کو اور چھوٹے بچوں کو کھینچے چلی جا رہی تھی پکی سڑک کی طرف جو محفوظ مقام تھا۔
کنارے کے قریب کھڑے مردوں نے پہلے بچوں کو پانی سے نکالا، بے بے کو پکڑ کر سہارا دے کر بٹھایا۔ ظہور نے بچے کسی کو تھما کر شیداں کی طرف ہاتھ بڑھا یا۔ ”نہیں نہیں میں نہیں آتی۔ حمیدہ کو لے کر آﺅں گی ورنہ یہیں مر جا ¾وں گی“۔ رشیداں چلائے جا رہی تھی۔
”شیداں۔۔۔شیداں۔ پاگل نہ بن۔ اس طرف کشتیاں لے کر جا رہے ہیں کچھ لوگ۔ چل آ جا“ پر اس نے ایک نہ سنی اور ہاتھ ڈھیلا پڑتے ہی پانی کا زور اسے دھکیل کر لے گیا۔۔۔ شی۔۔۔داں،۔۔ اس نے ظہور کی آواز دور ہوتی ہوئی سنی۔
” نِکی ٹھیک ہے اسے چارہ پٹھے ڈالو حمیدہ“ بھینسوں کا ڈاکٹر ابھی ابھی سب کو چیک کر کے گیا تھا۔حمیدہ کلوری کی نکی کے پاس بیٹھی اسے چارہ ڈال رہی تھی جب پانی باڑے میں داخل ہوا اور باڑے کی کچی دیوار کے گرنے کے ساتھ ہی بھینسیں” آں۔۔۔آں۔۔۔کے شور کے ساتھ باہر کی طرف تیرنے لگیں۔ گوالے اور ان کی گھر والیاں اپنے اپنے بچوں کو سنبھالنے لگ گئے۔ حمیدہ کی کسی کو یاد ہی نہیں آئی۔ پانی حمیدہ کے کندھوں سے گلے تک پہنچ گیا تھا اور اس سے پہلے کہ اس کا توازن بگڑتا اور وہ پانی کی منہ زور لہروں کے ہتھے چڑھتی۔۔ قریب ہی کُلوری نے زور سے ” آں۔۔آں۔۔ آں کی آواز نکال کر اسے سینگوں کا سہارادیا۔ ڈری ہوئی حمیدہ سینگ پکڑ کر کُلوری کی پیٹھ پر آ گئی اور دونوں بازﺅں سے اس کی گردن کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ ”ہائے اماں۔۔۔ ہائے ابا۔۔۔بے بے“ اس کا ننھا سا دل پانی کے پُر ہول منظر سے دھک دھک کر رہا تھا۔ ”کُلوری۔۔ مجھے بچا لے۔۔ کُلوری“ حمیدہ کو لگا کُلوری ہی اب اس کی اماں تھی جو اسے اس موت کے بے رحم جال سے بچا سکتی تھی۔ کُلوری نے مڑ کر اپنی نِکی کو تیرنے کی کوشش کرتے دیکھا پھر ”آں۔۔آں۔۔ کی آواز سے اسے پیچھے آنے کو کہا اور کسی سمجھ دار انسان کی طرح دائیں بائیں دیکھ کر ایک طرف تیرنے کا فیصلہ کر لیا یہ دیکھے بغیر کہ اس کی بچھیا کب سے پانی کی لہریں بہا کر لے بھی جا چکیں۔ حمیدہ کو لگا اس کی اماں ٹھیک کہتی تھی ”کُلوری باتیں کرتی ہے۔ اسے لگا کُلوری نے اس سے کہا ہے آنکھیں بند کر لو پانی کی طرف نہ دیکھو اور وہ پڑھو جو بے بے ہر مشکل میں پڑھتی تھی‘۔اسے یاد آ گیا اور وہ حضرت غازی کا ورد پڑھنے لگ گئی۔
یا غازی سرکار علم دار! ترِکھے گھوڑے دے سوار ! اپڑِیں تے نپڑیں سردار!
جانے کتنی دیر ڈبکیاں کھانے کے بعد ایک درخت کی شاخوں میں آ کرر شیداںاٹک گئی۔ جیسے موت نے اسے زندگی کی طرف واپس دھکیل دیا ہو۔ وہ پیڑ کی اونچی اور مضبوط شاخ پر چڑھ کر بیٹھ گئی۔ اللہ جانے یہ کون سا علاقہ ہے۔ کس گلی کا پیڑ ہے۔کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔بس ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ بھیگے کپڑوں میں کپکپاتے اور سامنے کھڑی موت سے کچھ دیر کی رہائی کے اس عالم میں خوف کے مارے رشیداں نے دوسری طرف نظر گھمائی۔ پانی کے شور میں ایک کالی سیاہ چیز اور اس کے اوپر ایک گٹھڑی بہتی چلی آ رہی تھیں۔ ہائے رُڑھ گئی میری حمیدہ۔۔میری سوہنڑی بچی۔۔ ماں نے کیوں بھیجا تجھے میری بچی۔۔۔ماں صدقے۔۔ مالک مجھے اٹھا لے“۔۔ اس کے کپکپاتے بین ہوا سنتی رہی ۔۔ گٹھڑیاں اب قریب آ چکی تھیں۔ اس نے غور سے دیکھا۔ زندگی اس کی رگوں میںتیزی سے دوڑنے لگی۔ یہ تو کلُوری تھی جو جانے کب سے اور کہاں سے موجوں سے لڑ لڑ کر پشت پر حمیدہ کو لادے کبھی ادھر اور کبھی ادھر بھٹک رہی تھی۔ ” کُلوری۔۔۔کُلوری!۔۔۔ اس نے سینے کا زور لگا کر آواز دی تو کُلوری ، پانی جس کے نتھنوں تک چڑھا جا رہا تھا۔ اس نے جی جان کا زور لگا کر اپنا رخ اپنی مالکن کی آواز پر اس کی طرف پھرا دیا اور تھوڑی دیر میں نیم بے ہوش حمیدہ کو ماں نے کلوری کی پشت سے کھینچ کر سینے سے چمٹا لیا۔ میری بچی۔۔میری جند جان۔۔ماں صدقے۔۔ وہ اسے چومے چلی جا رہی تھی۔ ”اے مالک ۔۔اب مجھے میرے بچوں کی خاطر زندگی دے دے۔ پالنے والے۔۔ اب اس کی دھڑکنوں میں جینے کی آرزو تیز ہو گئی تھی۔ اچانک اس نے دیکھا کہ کُلوری اس کی ممتا کو ٹھنڈک پہنچا کر اپنی سلگتی ہوئی ممتا کا زخم لے کر اس سے دور ہوئی جا رہی تھی۔ ”کُلوری۔۔۔میری محسن کُلوری۔۔۔ او میری کُلوری“ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
ماں بیٹی درخت پر ہیلی کاپٹر میں موجود عملے کو دکھائی دے گئیں تھیں۔ ایک جوان نے اس کی طرف ایک بیلٹ بڑھائی ”بہن جی اسے اپنے اور بچی کے گرد لپیٹ لیں۔ مددگار اسے اوپر کھینچ رہے تھے اور وہ کلُوری ۔۔ہائے میری پیاری کلوری کہہ کہہ کرچلائے جا رہی تھی۔
”بہن جی اگر آپ کی کوئی اور بیٹی یا بہن کہیں رہ گئی ہے تو نشاندہی کر دیں ہم بچا لیں گے اسے بھی“ مددگاروںنے اسے تسلی دی۔
”وہ۔۔۔وہ۔۔ اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا جہاں محافظوں کو ایک کالا نشان نقطہ بنتا دکھائی دیا اور دوسری بار دیکھنے پر وہ نکتہ بھی پانی میں تحلیل ہو چکا تھا۔
No comments:
Post a Comment