دوسرا رنگ (افسانہ) عابدہ تقی
ایک دودھیا سفیدی تھی جو حدِ نظر تک پھیلی ہوئی تھی۔
وہ پتھروں کو کھودتے کھودتے ایک کونے میں آ کر بیٹھ گیا تھا اور اسی سفید موت کو سوچ رہا تھا جس نے اس کے باپ کو اور یہاں کام کرنے والے جانے کتنوں کو آ دبوچا تھا۔ تب سے اس کے منظر بھی یک رنگ ہو گئے تھے۔ یہاں تو آسمان بھی نیلا نہیں سفید ہی نظر آتا تھا، سورج اسے سفید مرغی کا انڈہ دکھائی دیتا تھا اور رات کسی ڈراﺅنی چڑیل کے سفید دانت ۔ جب وہ شہر جاتااور لاری کے شیشے سے باہر کے مناظر، قطار اندر قطار سبز درختوں اور رنگ برنگ پھولوں کی کیاریوںاور لہلہاتی فصلوں کو دیکھتا تو خوشی کی ایک لہر اس کے رگ و پے میں دوڑ جاتی لیکن دوسرے ہی لمحے سفیدی لپک کر آتی تھی اور ہر شے کو ڈھانپ لیتی یوں جیسے وہ برف پوش راستوں سے گزر رہا تھا۔
اس عید پر وہ رجو اپنی گھر والی کے لئے لال رنگ کا سُوٹ لایا تھا۔ اس کا دل چاہتا تھا وہ اسے پھر کبھی ”ووہٹی“ بنی نظر آئے لیکن جب وہ عید کی نماز پڑھ کر آیا تو لال جوڑے میں شرماتی لجاتی رجو اسے ذرا دیر کو دلہن لگی تھی۔ اس نے دوبارہ پلکیں جھپکیں تو اس کے چہرے کی سفیدی کے عکس نے لال جوڑے کو سفید ماتمی لباس میں تبدیل کر دیا تھا۔ رجو اسے اجڑی ہوئی بیوہ کی طرح لگ رہی تھی یا پھر کوئی اداس روح۔ وہ بیوی کی تعریف میں دو جملے بھی نہیں کہہ سکا، نہ ہاتھ پکڑ کر اسے پاس بٹھا سکا۔ بس اندر جا کر آنکھوں پر بازو رکھ کر سو گیا۔ یہ تو کچھ بھی نہ تھا۔ بدن ادھیڑنے والی بات یہ تھی کہ اس کا بیٹا عالم اور بیٹی زرینہ اپنی ماسی کے گھر سے پنجرے میں بند ایک طوطا اٹھا لائے جو شروع میں اسے بھی بہت اچھا لگا۔ اس سفیدی بھرے ماحول میں اس کے سبز پروں کو دیکھنا اسے بھلا معلوم ہوتا تھا اور اس کی ٹائیں ٹائیں بھی اس کے گھر کی غمگین فضا کے بوجھل پن کو کم کرتی تھی لیکن ایک دن عجیب ہوا جب اس کی بیٹی زرینہ نے اسے آواز دی ”بابا میرے طوطے کو چوری کھلا دو میرے ساتھ“ اور وہ جیسے ہی پنجرے کے پا س گیا وہ طوطا سفید عفریت بن گیا۔ اُس کی ٹائیں ٹائیں اسے سفید موت کا پیغام لگ رہی تھی ۔اس نے پنجرے کا دروازہ کھول کر طوطا اڑا دیا تو زرینہ جو سب کچھ نہیں جانتی تھی جو اس کے باپ پر گزر رہی تھی لہذا وہ کتنے دن روتی رہی تھی۔
اس کے باقی ساتھیوں کے ساتھ ایسا نہیں تھا۔ کیوں نہیں تھا؟ شاید اس پر کسی اوپر کی چیز کا اثر ہو گیا ہے‘ یہی سوچ کر اس کی بیوی ” سائیں زلفوں والی سرکار “ سے پانی بھی دم کروا کے لائی تھی اور ”مچ“ سے تھوڑی راکھ بھی لیکن کوئی فرق نہیں پڑا ۔ اس کے منظر بدستور سفیدی اوڑھے رہے۔ اپنی تسلی کے لئے وہ ڈاکٹر سے آنکھیں بھی چیک کروا کے آ گیا۔ ایک دن تو اس سفیدی کے آسیب نے اسے یوں گھیرا کہ وہ کھڑے کھڑے بے ہوش ہو گیا۔ بھائی اسے شہر لے آیا بڑے ڈاکٹر کے پاس۔
”کتنا عرصہ ہو گیا ہے آپ کو اس نمک کی کان میں کام کرتے کرتے“؟ ڈاکٹر صاحب اس سے پوچھ رہے تھے
”پندرہ سال جی“ یہ جواب بھی اس کے بھائی نے ہی دیا تھا وہ تو ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کا سفید گاﺅن اس نمک کا تو نہیں بنا جسے وہ کھود کھود کر نکالتا آیا تھا۔
”کوئی خاص بات نہیں۔ یہ کچھ دوائیں لکھ دی ہیں۔ انہیں ریسٹ چاہیئے اچھا ہو گا انہیں کچھ عرصے کے لئے کسی پر فضا مقام پر بھیج دیا جاے۔ ماحول اور فضا بدلے گی تو ٹھیک ہو جائیںگے“ ۔ ڈاکٹر صاحب نے مسکرا کر تسلی دی۔
انہوں نے نسخہ اس کی طرف بڑھایا تو وہ سفید کاغذ کو ہاتھ میں تھام کراسے جھاڑنے لگ گیا جیسے اس کاغذپر نمک گر گیا ہو اور دوائی کی گولیاں بھی سفید تھیں اس نے کھانے کے بجائے دور پھینک دیں۔ ”اونہہ نمک سے بنی ہوں گی یہ بھی“ اس نے پھر غصہ دکھایا تو رجو پانی کا گلاس واپس لے گئی۔ ©شیر سلطان کو اب خط لکھوانا پڑے گا وہ آئے گا تو خیرو کا مسئلہ حل ہو گا“ ۔رجو بے بے اور خیرو کے بڑے بھائی سے مشورہ کر نے لگ گئی۔
٭٭٭
وہ سب پشتوں سے یہیں آباد تھے اور کان کنی کے پیشے سے وابستہ۔ اسی نمک کے ارد گرد گھومتی ہوئی ان کی برسوں پر محیط زندگی اور اسی کے گرد آباد برادری، ان کی شادیاں اور موتیں، خوشیاں اور غم، بچے اور بچیاں سب کچھ یہیں پروان چڑھا تھا۔ اس کا باپ اسے فخریہ سنایا کرتا تھا۔ ” ہمارے بازﺅں میں بڑا دم ہے پتر اوئے ! یہ کدالیں اور بازو ہی ہیں جنہوں نے چٹانیں توڑ توڑ کر یہ کان بنائی ہے “۔ بچپن میں وہ کئی بار باپ کے ساتھ سرنگ کے اند ربھی گیا تھا جہاں بارود پھوڑ کر اور تودے گرا کر راستے بنائے جاتے تھے۔ پھر اس کے باپ کی زندگی بھی ایک ایسے ہی دھماکے کی نذر ہو گئی تو کنٹریکٹر صاحب نے ان کے گھر کو معاوضہ ادا کر کے اس کے کام پر بھرتی ہونے کی پیشگی بھی ماں کے ہاتھ پہ دھر دی۔ ”مالکوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ افضل دین کی جگہ اس کے بیٹے خیر دین کو کام پر بھرتی کر لیں ۔” کل بھرتی ہے خیر دین کو بھیج دینا شہر سے مالک بھی آئے ہوں گے‘۔ کنٹریکٹر صاحب نے مزدوروں کے لیڈر عبدالصمد سے بات کی تھی جو اَب اس کی ماں کو یہ خوشخبری سنانے آیا تھا۔
”چنگا بچیا ہونی کو کون روک سکتا ہے۔ یہ تو شکر ہے میرے افضل کو اللہ نے پہلا پتر ہی دیا تھا۔ یہ پُتر اسی دن تو کام آتے ہیں۔“ اس کی دادی نے آنسو پونچھ کر اس کی طرف مسکرا کر دیکھا اور وہ اس کی پیٹھ تھپکتی رہیںاپنے آنسو گلے میں اتار کر۔
وہ پہلی بار نیلی وردی پہن کر کدال اٹھا کر آیا تو اسے اپنے بڑے ہونے کا احساس خوشی دے رہا تھا خاص طور پر یومیہ وصول کرتے ہوئے تو اسے ایسی خوشی ہوئی تھی کہ وہ اسے بیان نہیں کر سکتا تھا۔لیکن رفتہ رفتہ وہ خود بھی اس سفیدی کا حصہ بن گیا جو اسے اب اچھی نہیں لگتی تھی۔ جب وہ گھوڑی چڑھا تھا تو ہر رنگ اسے الگ شناخت کے ساتھ نظر آتا تھا۔ رجو کے گھر میں آنے کے بعد بھی زندگی کی رنگینیاں اسے لطف دیتی رہیں ۔پھر زرینہ اور عالم کا بچپنا بھی اسے رنگ و راحت کے نئے ذائقے سے آشنا کرنے لگے لیکن جوں جوں اس کا بیٹا عالم بڑا ہو رہا تھا تو اسے سفیدی کی پھپھوندی لگ گئی تھی۔ ’کیا وہ بھی بیٹے کو وراثت میں یہی دے کر جائے گا اس کے اگلوں کی طرح۔ یہ سفید زندان اور پھر سفید موت‘ نہیں نہیں وہ گھبرا اٹھتا میں انہیں دوسرے رنگ ورثے میں دوں گا۔ جیتے جی یہ سفید زندان نہیں‘ اس نے گھبرا کر زرینہ اور عالم کی طرف دیکھا جو دادی کے پاس لیٹے کہانی سن رہے تھے۔
”پھر کیا ہوا دادی؟ عالم کے سوال پر وہ مسکرا دیا۔ کبھی وہ خود بھی باپ سے ایسے ہی سوال پوچھتا تھا۔
”پھر اللہ تمھارا بھلا کرے پُتر۔ بادشاہ نے سب سے چھوٹی والی شہزادی کو بلا کر پوچھا شہزادی! میں تمھیںکتنا چنگا لگتا ہوں؟ دادی نے حقے کا کش لیا تو اس کی گڑگڑاہٹ کے وقفے نے بچوں کو پھر مشتعل کر دیا۔
”آگے بتائیں ناں دادی“ دونوں اُٹھ کر بیٹھ گئے۔
”لو جی اس نیک بخت نے کہا ۔ ابا جی! آپ مجھے اتنے چنگے لگتے ہیں۔ اتنے چنگے لگتے ہیں جتنا نمک“ دادی نے کہانی آگے بڑھائی تو خیر دین کروٹ بدل کر بول پڑا۔
”بے بے جی بس کریں یہ فضول کہانی اور تم بھی کاکا سو جاﺅ اب“۔ اونہہ اتنے اچھے لگتے ہیں جتنا نمک۔ دماغ خراب تھا شہزادی کا‘ وہ بڑبڑایا لیکن بے بے کو اونچا سنائی دیتا تھا تو وہ اسی طرح سے بولتی رہیں۔
”بس پھر کیا تھا اتنا سنتے ہی بادشاہ کو جلال آ گیا اس نے شہزادی کو گھر سے نکل جانے کا حکم دیا“۔ دادی نے دکھ سے کہا تو خیرو خوش ہو گیا ’بہت اچھا کیا بادشاہ نے میں بھی یہی کروں گا اگر کسی نے نمک کو اچھا کہا میرے سامنے تو میںاسے گھر سے نکال دونگا ‘۔ اس نے کروٹ بدل لی۔
”اللہ بڑا بے نیاز ہے پُتر اوئے۔ بادشاہ کے منہ سے نکلے ہوئے تکبر کے لفظوں سے اس کی پکڑ ہو گئی۔ کرنی خدا کی یہ ہوئی کہ اس بادشاہزادی کی شادی ایک دوسری سلطنت کے شہزادے سے ہو گئی اور اس نے ایک دن اپنے شوہر سے کہہ کر اپنے بادشاہ باپ کی دعوت رکھ لی اور باورچیوں کو حکم دیا کہ سارا کھانا بغیر نمک کے بنایا جائے“۔
”جلدی سنائیں ناں آگے کیا ہوا“ زرینہ کی آنکھیں نیند سے بند ہو رہی تھیں لیکن کہانی اب دلچسپ موڑ تک پہنچ چکی تھی۔
”بس پھر کیا تھا جب بادشاہ کے سامنے کھانے کا دسترخوان چنا گیا تو وہ جس کھانے کو چکھتا وہ بے سوادا ہوتا۔ بغیر لُون کے کیونکہ شہزادی نے لُون تو کھانوں میں ڈلوایا ہی نہیں تھا۔ بادشاہ جس کھانے کو کھاتا وہیں چھوڑ دیتا آخر اس سے نہ رہا گیا تو اس نے میزبان شہزادے سے پوچھا کہ ان کے ہاں کھانوں میں نمک کا رواج نہیں ہے کیا جو اسے یوں بے ذائقہ کھانے کھلائے گئے“۔
”پھر کیا ہوا دادی جلدی سنائیں ناں“ بچے بیتاب ہو رہے تھے۔
“ تو شہزادے نیک بخت نے کہا بادشاہ سلامت مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ کو نمک بہت ناپسند ہے“ جس پر بادشاہ نے کہا ” با غلط۔ بالکل غلط۔ نمک تو مجھے سب سے زیادہ پسند ہے بھلا نمک کے بغیر بھی کوئی مزہ ہے زندگی کا۔ بس پھر شہزادی بھی پردے سے اندر آ گئی اور نقاب اٹھا کر بولی” ابا جان مجھے پہچانئے میں ہی وہ شہزادی ہوں جسے آپ نے اس لئے گھر سے نکال دیا تھا کہ میں نے کہا تھا کہ آپ مجھے اتنے اچھے لگتے ہیں جتنا نمک“ تو بادشاہ شرمندہ ہوا ۔ اپنی بیٹی سے معافی مانگی بیٹی کو گلے لگایا اور کہا کہ میں مان گیا کہ نمک بہت اچھا ہوتا ہے۔ لو جی کہانی ختم پیسہ ہضم اب سو جاﺅ“۔
اور خیرو نے کہانی ختم ہونے پر سکھ کا سانس لیا۔ پتہ نہیں کس نے یہ کہانیاں ایجاد کی ہیں۔ اگر بادشاہ کو نمک کھودتے کھودتے زندگی گزارنی پڑتی تو میں پوچھتا کتنا اچھا لگتا ہے اسے نمک‘ یہ بے بے کی کہانیاں بھی ناں اسی نمک سے بھری ہوتی ہیں۔’ کسی دن ان کی کہانی میں وہ گدھا پانی میں گر جا تا ہے جس پر نمک لدا ہوا تھا اور کسی روز سکندرِ اعظم کے گھوڑے نمک چاٹ کر مرنے سے بچ جاتے ہیں۔ جو اس علاقے میں آئے تھے۔ اگلے روز مغل بادشاہ بابر کو یہ جگہ پریوں کا مسکن دکھائی دی تھی۔ دادی اس زمانے کی کہانیاں بھی سناتی تھیں جب پہلے زمانے میں بونے نمک کی دیوار کو ہاتھ لگاتے ہی نمک کے بن جاتے تھے۔ یا پھر اس درویش کا قصہ لے بیٹھتی تھیں جس کی برکت سے اس نمک کی دیوار کو چاٹ کر جو دعا مانگی جاتی قبول ہوتی تھی‘ ۔ یا پھرچین کے اس بادشاہ کی کہانی جو نمک کے سکے بنایا کرتا تھا۔ اونہہ یہ قصے کہانیاں‘ وہ پیچ و تاب کھاتے کھاتے تھوڑی دیر میں سو گیا۔
٭٭٭
اگلے روز ایک نئی ٹورسٹ پارٹی آن پہنچی تھی اور یہ تو اب روزمرہ کا ہی نظارہ تھا۔ ان کے ساتھ ٹی۔وی کیمرے اور اسٹوڈنٹس، ریسرچ آفیسرز، کچھ گورے، ہنستے کھکھلاتے بچے۔ سب نمک سے بنی سرنگوں میں سے گزر رہے تھے۔ نمک سے بنایا ہوا شیش محل، بادشاہی مسجد، مینارِ پاکستان، نمک سے گرتے ہوئے بوند بوند پانی کی جھیل سیف الملوک اور کئی ایسی حیران کُن چیزیں دیکھ کر سب خوش ہو رہے تھے۔ اب وہ سب چل کر ہسٹری ہال میں داخل ہو چکے تھے جہاں انجینئر صاحبان انہیں اس علاقے کی ترقی کے مناظر ویڈیو اور پراجیکٹر سے دکھا رہے تھے اور پوائینٹر کے ساتھ ساتھ ان کی آواز کمرے میں گونج رہی تھی۔
”۰۵۷ سن عیسوی میں سکندرِ اعظم اس علاقے میں فوج کے ساتھ پہنچا اورہسٹری بتاتی ہے کہ یہ اس جگہ کی پہلی دریافت تھی۔ لیکن تاریخی قرائن سے یہ بھی ثابت ہے کہ اس بھی قبل یہ علاقہ چینی بادشاہوں کے زیرِ تسلط تھا ۔ ٹورسٹ اپنے نوٹس لیتے جا رہے تھے ۔ مائیک کا رُخ بھی ہسٹری بتانے والے کی طرف تھا۔
”سن 1872میں ایک انگریز انجینیئرنے اس جگہ کو باقاعدہ دریافت کیا اور یہاں کان کنی کی انڈسٹری کی بنیاد رکھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس سرنگ سے راستہ نکال کر اسے مین روڈ کے ساتھ جوڑ دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی کان کنی کے ماڈرن طریقے بھی متعارف کرائے گئے اور پاکستان نمک انڈسٹری میں نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ بہت بڑا ایکسپورٹر بھی ہے اور اس خوردنی نمک کی مانگ دنیا میں بڑھتی جا رہی ہے“َ ہسٹری مین نے اپنا لیکچر ختم کیا تو خیر دین نے سوچا۔
’جانے کس بات پر خوش ہوتے ہیں۔ ہم مزدوروں کے لئے تو یہ سب مزدوری ہے یا پھر موت کی سوداگری۔ کتنے ہی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں بلاسٹنگ کے دوران اور کتنے ہی سالٹ شِیٹ کٹنگ کے دوران زخمی بھی ہو جاتے ہیں، اچانک تودا گر جانے سے دب کر مر جاتے ہیں۔ نمک میں سانس لے لے کر دمے کے دائمی مریض ہو جاتے ہیں لیکن ان ٹورسٹ کو کوئی یہ تاریخ تو نہیں دکھائے گا۔ انہیں کیا یہ تو یہ دیکھنے آئے ہیں کہ انجینیرز نے کیا کیا بنالیا ہے یہ تھوڑا ہی دیکھتا ہے کوئی کہ مزدوروں نے کیا کیا کھو دیا ہے‘ اسے پھر باپ کی کفن زدہ لاش نظر آنے لگ گئی۔ لیکن اسے انٹرویو میں یہ سب نہیں کہنا تھا۔ جو اسے کہنا تھا وہ اسے یاد کروا دیا گیا تھا او وہ کیمرے کے سامنے کہہ رہا تھا۔
”بہت ہی اچھا لگتا ہے یہاں کام کرنا میں ساتویں نسل ہوں یہاں کام کرنے والوں کی۔ یہ ہمارا جدی پشتی پیشہ ہے ہم نسلوں سے یہ کام کرتے آ رہے ہیں۔ یہاں صحت کی سہولت بہت اچھی ہے۔آب و ہوا بھی اچھی ہے۔ لوگ شہر سے اور دور دور سے آتے ہیں تو بڑی خوشی ہوتی ہے۔ اور ہمارا تو روزگار ہے ناں جی “ ۔ اس نے کہانی ختم کی تو رپورٹر نے اس کا شکریہ ادا کیا۔
”تو ناظرین دیکھا ٓپ نے قدرت کا یہ انتہائی طلسماتی عطیہ جسے انسانی ہاتھوں نے کس مہارت کے ساتھ بنایا ہے اور اسے ایک مِنی پاکستان میں تبدیل کر دیا ہے۔ کیمرہ مین نصیر کے ساتھ میں ہوں آپ کی رپورٹر ۔۔“ وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں سن سکتا تھا ۔ دفعتاََ اسے لگا جھوٹ بولتے بولتے اس کی زبان بھی سفید ہو گئی تھی ۔ پریشان ہو کر وہ پاس کھڑی گاڑی کے ویو مرر میں زبان دیکھنے لگا تھا۔
© ©”کیا بات تجھے اندر ہی اندر کھائے جا رہی ہے خیر دینا میں تیرے بچپن کا سنگی بیلی ہوں مجھے تو اصل بات بتا تا کہ اس کا کوئی حل نکلے“۔ شیر سلطان اس کے گھر کے صحن میں اس کے پاس بیٹھا تھا ۔بے بے، رجو اور ذرینہ جو صبح سے شیر سلطان کی خاطر مدارات میں مصروف تھیں ابھی ابھی اٹھ کر اندر گئی تھیں اور موقع غنیمت جان کر شیر سلطان نے بات چھیڑ دی۔
شیر سلطان خیر دین کے بچپن کا دوست تھا۔ اس کا باپ یہاں پر فورمین ہوا کرتا تھا جب خیرو اور وہ بچے تھے۔ وہ ایک ساتھ مل کر یہاں سیر کو آنے والوں کا نظارہ کرتے تھے۔ انگریز ٹورسٹ کے ساتھ مل کر ان کے کیمرے سے تصویریں اترواتے، انہیں سلوٹ مارتے اور ان کو دیکھ دیکھ کر ہنستے تھے لیکن یہ عرصہ بھی جلد گزر گیا تھا اور اس کا باپ کسی دوسرے شہر میں کسی اور فیکٹری میں ملازم ہو گیا تھا تو شیر سلطان بھی چلا گیا۔ شیر سلطان اچھی جگہ لگا ہوا تھا۔ اس کی رہائش ایک بڑے شہر میں تھی جہاں وہ نسبتاََ خوشحال زندگی گزار رہا تھا۔ شیر سلطان نے اپنا رابطہ خیر دین سے بحال رکھا تھاخط و کتابت کے ذریعے سے اور کبھی کبھار اس طرف نکل آتا تو اس سے اور اس کے خاندان سے مل بھی جایا کرتا تھا۔خیر دین کی عجیب و غریب بیماری کی خبر اسے پہنچی تھی اور وہ پہلی فرصت میں اس سے ملنے چلا آیا تھا۔
”میں اپنے عالم کے لئے پریشان ہوں شیر سلطان۔ میں نے ساری حیاتی اس سفید زندان میں گزار دی۔ اپنے باپ کی لی ہوئی پیشگیاں ادا کرتے کرتے اور اب کسی دن میں بھی کسی تودے تلے آ کر مر گیا تو میرے عالم کو بھی یہ سفیدی نگل لے گی“۔ خیر دین نے دل پہ رکھی اپنے دکھوں کی گٹھڑی اپنے دوست کے سامنے کھول کے رکھ دی۔
”یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے کہ جس کا حل نہ ہو۔ عالم کو اسکول بھیج پڑھ لکھ جائے تو کسی اور جگہ نوکری لگ جائے گا بڑا ہو کر“ شیر سلطان نے لمحوں میں ایک عمر کے مسئلے کا حل بتا دیا تھا اپنے بچوں کی مثالیں دے کر ” بڑا لڑکا خیر سے ہائی اسکول میں میٹرک کا امتحان دے گا اگلے سال اور اس سے چھوٹے دونوں بھی پڑھائی میں ہشیار ہیں تو انہیں میں اچھی تعلیم دلوا رہا ہوں آگے جو اللہ کی مرضی“۔ شیر سلطان کے چہرے پر اپنے بیٹوں کی بات کرتے ہوئے خوشی کے انوکھے رنگ دکھائی دے رہے تھے۔
”میں پڑھائی کا خرچ نہیں اٹھا سکتا ویسے بھی یہاں قریب لڑکوں کا مڈل درجے تک کا اسکول ہے۔ شہر بھیجنے اور آگے پڑھانے کا تو سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہاں تو سب کے لڑکے زیادہ سے زیادہ پانچویں تک پڑھ کر اسی جگہ بھرتی ہو جاتے ہیں“۔ خیر دین پھر گہری سوچ میں ڈوب کر تھوڑی دیر چپ ہو گیا اور پھر بولا ” میں چاہتا تھا اپنے بیٹے کو ورثے میں کوئی اور رنگ دے کر جاﺅں یہ موت بھری سفیدی نہیں“۔ اس نے بات ختم کر کے پھر خلا میں گھورنا شروع کر دیا۔
”اگر تیرے ٹھیک ہو جانے میں صرف اتنی سی بات حائل ہے تو چل یہ مسئلہ تو حل سمجھ۔ میں عالم کا چاچا ہوں جیسے تیرا بیٹا ویسا ہی میرا بھی۔ میں اسے ساتھ شہر لے جاﺅنگا اور وہیں اس کو دسویں جماعت تک پڑھاﺅں گا اور کہیں اچھی نوکری بھی لگوا دوں گا۔ کیا خیال ہے؟ شیر سلطان کی بات ختم کرتے ہی خیر دین اس سے لپٹ کر رونے لگ گیا۔
”میں تیرا یہ احسان زندگی پھر نہیں بھولوں گا شیر سلطان اور اس کی تعلیم کی ایک ایک پائی ادا کر دونگا“
”او چُپ کر اوئے بکواس نہ کر۔ بڑا آیا ادائیگی والا۔ دوست کہتا ہے اور بیوپاریوں جیسی باتیں کرتا ہے۔ بس پھر اب پکی بات ہے کہ عالم کو میں ساتھ لیتا جاﺅنگا تو گھر والوں سے بات کر لے“۔ شیر سلطان نے اس کے قدموں تک جھکے ہوئے خیر دین کو اٹھا کر گلے سے لگا کر تھپکی دی تو خیر دین کی آنکھوں کے مناظر نے کئی رنگ اوڑھ لئے ۔ سفیدی کہیں دور غائب ہو گئی۔
٭٭٭
رجو نے چپ سادھ لی تھی یہاں فیصلے کا اختیار تو مردوں کو ہی ہوتا ہے اور خیر دین تھا بھی غصے کا ڈاڈھا بندہ۔ بیٹے کی جدائی نے اسے خاموش کر دیا تھا لیکن خیر دین بہت خوش تھا۔
” جو مستقبل تو بتا رہا ہے ناں خیر دینا! اس میں تیرے بیٹے کو شایدکچھ مل جائے پر تیرے پلے کچھ نہیں آئے گا“ دادی الگ واویلا مچانے میں لگی تھیں جن سے بستی کی عورتیں افسوس کرنے آئی تھیں کہ عالم خیر دین شیر سلطان کے شہرمیں پڑھنے جا رہا ہے۔
”یہاں کیا برائی تھی باپ دادا کا پیشہ ہے۔ عزت کی روٹی ملتی ہے۔ اللہ نے تجھے بھاگ لگائے ہیں اب تو کام بھی آسان ہے۔ تیرے باپ دادا کے زمانے میں تو زیادہ مشکل تھا۔ ایک آنہ ملتا تھا اب تو اتنے روپے ملتے ہیں“ بڑے چاچا بھی ناراض ہو رہے تھے۔ بڑے چاچا نے اپنے چاروں لڑکوں کو یہیں مزدوری پر لگوا دیا تھا۔ ایک تو سرنگ کے اندر لیجانے والے ٹرک ٹرالر چلاتا تھا ، دوسرا بڑے نمک کے تودے برابر سائز میں کرنے پر تھا اور باقی دو چھوٹے تھے تو انہیں بھی یہیں کھدائی کے بعد لادنے کے کام پر چاچے نے لگوا رکھا تھا۔
”چل تُو چار جماعتیں زیادہ پڑھوا لے گا تو عالم کو نواب تو نہیں بن جانا اوئے سب مزدور ہیں تو محنت ہی اپنا پیشہ ہے“ یہ بھی بستی کا کوئی بزرگ سمجھا رہا تھا لیکن وہ نہیں مانا اور یوں عالم شیر سلطان کے شہر آ کر گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخل ہو گیا۔
عالم کے شہرچلے جانے کے بعد وقت کو بھی جیسے پر ہی لگ گئے تھے۔ زندگی جیسے ا س کے بیٹے کے خطوں کے اور اسکے چھٹی آنے کے بیچ ہی ملن اور جدائی کی کہانیاں سناتے گزر گئی تھی۔ اب خیرو کو بھی عمرکے اس حصے نے آن لیا تھا جب جوان بیٹے کی لاٹھی ہی زندگی کو آگے کھینچ سکتی ہے اور اس کا خط ہاتھ میں تھا۔”آپ کی دعاﺅں سے میری اب انڈسٹری میں مکینک سے سینئر مکینک کے عہدے پر ترقی ہو گئی ہے اور مجھے یہاں کالونی میں کوارٹر بھی رہنے کے لئے مل گیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اب آپ ، اماں اور زرینہ یہاں آکر میرے ساتھ رہیں۔ زرینہ کی شادی بھی میں خود کرواﺅں گا اور آپ کی خدمت بھی۔“ خیرو کو خط پڑھ کر سنانے والاہمیشہ اشرف پوسٹ مین ہی ہوتا تھا۔
”مبارک ہو خیر دینا تیرے بیٹے کی ترقی بھی ہو گئی اور اب وہ تیرے بڑھاپے کا سہارا بھی ہو گیا۔ تیری محنت رنگ لے آئی” اشرف پوسٹ مین نے کہا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ خوشی کے آنسو۔کتنا وقت بیت گیا تھا کل تک عالم یہاں دادی سے کہانیاں سنتا تھا، زرینہ کو تنگ کرتا تھا، علاقے کے اسکول ماسٹر سے شرارتیں کرتا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اتنا بڑا ہو گیا تھا۔
” رَجو! نیک بخت وہ اگلے ہفتے ہمیں بُلا رہا ہے۔ اسے وہاں کوارٹر مل گیا ہے۔ کہہ رہا ہے کہ۔۔“ جوشِ جذبات سے خیرو کی بات ہی ادھوری رہ گئی۔
” میں سب سُن رہی تھی۔ اللہ لمبی حیاتی کرے میرے بچے کی۔ بے بے ہوتی تو کتنی خوش ہوتی۔ اس دن کا اسے کتنا انتظار تھا“۔ رَجو نے دیکھا کہ زرینہ بھی مسکرا رہی تھی۔
’مجھے سب سے زیادہ انتظار تھا نیک بختے میں اس سفید آسیب سے نکلنا چاہتا تھا اور بیٹے کو بھی اس کے چنگل سے آخر نکال ہی لیا میں نے۔ اللہ شیر سلطان کا بھلا کرے۔‘ وہ سوچ سوچ کر مسکراتا رہا۔
”شیر سلطان کو تو اللہ نے بھاگ لگا ہی دئے ۔ اسی لئے تواب اس عمر میں وہ اپنے لڑکے کے پاس امریکا جیسے بڑے شہر میں ہے۔میرے تو ہر سانس نے اٹھتے بیٹھتے اسے دعائیں دی ہیں۔ اللہ اس کے بچوں کو شاد آباد رکھے” رجو نے دعائیں دینی شروع کر دیں تو وہ مسکرا دیا۔
زندگی نے ایک بار پھر کتنے حسین رنگ اوڑھ لئے تھے دور آسمانوں پہ بنتی ہوئی قوس ِ قزح کے رنگ۔
”دیکھارَجو میں کہتا تھا ناں میں اپنے بیٹے کو وہ سفیدی ورثے میں نہیں دونگا“ وہ سب لوگ اب کالونی میں داخل ہو چکے تھے اور خیر دین اُتر کر کوارٹر کا جائزہ لینے لگ گیا۔زرینہ اور رَجو دونوںادھر ادھر دیکھ رہی تھیں کہ انہیں وہ آتا نظر آیا۔ وہ اپنے گھر والوں کو دیکھ کر دیوانہ وار بھاگتا ہی چلا آیا۔ نیلے رنگ کی وردی میں سر پر چمکتی ٹارچ والی ٹوپی پہن کر جب عالم اپنے بابا، ماں اور زرینہ سے ملا تو نیلی ڈانگری پر سیاہ کوئلوں کا پاﺅڈر اور اس کے بدن پر سیاہ نشانوں کو دیکھ کر رجو نے کلیجہ تھام لیا۔
”یہ کونسی فیکٹری ہے پُتر جس میں تو کام کرتا ہے کہ تیرا منہ سر سب کالا شاہ ہو رہا ہے“ خیر دین نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔
” کول مائینز ہیں ابا جی ۔ کوئلے کی کانیں ہیں ۔ میں آپ کو کل اندر سے بھی دکھانے لے جاﺅں گا“۔ عالم اب ماں سے گلے مل رہا تھا ۔
”یہ تُو نے کیا کیا زرینہ کے ابا “ رجو بیٹے کے گلے لگ کر روئے جا رہی تھی۔
No comments:
Post a Comment