Saturday, 15 June 2013

واپسی عابدہ تقی


اس چار دیواری کی اپنائیت بھری فضا اور اس میں رچی بسی مخصوص مہک گجو بھائی کی سانسوں میں ہی نہیں زندگی میں بھی گھل چکی تھی۔ اسی کی کھڑکیوں کے پار سے سنہری دھوپ کی چمک، بادلوں کی دھند اور تیز ہواﺅں کے ہاتھوں سے پھسلتی ہوئی بارشوں کے سب منظر ان کی آنکھوں پر کتنے سالوں سے اتر رہے تھے۔ ان کے ڈیسک کے بائیں جانب بڑی کھڑکی کے باہر سبز درخت اور ان کے گرد گولائی میں چنی ہوئی سرخ اینٹوں کے درمیان اگے ہوئے پھول، مناسب فاصلے پر بچھے ہوئے سنگِ مرمر کی بینچ نما نشستیں اور ان پر دن بھر غم و فکر سے آزاد طالب علم لڑکے لڑکیوں کی ٹولیاں اور ان کے قہقہے، گویا زندگی گجو بھائی کو بھرپور انداز میں یہیں ملا کرتی تھی۔ انہیں یہ بھی یاد نہیں تھا کہ کب وہ یہاں غضنفر علی سے گجو بھائی مشہور ہو گئے تھے اور اب بہت کم لوگوں کو ان کا اصل نام یاد تھا۔ لیکن انہیں یہاں کی کسی بات پر کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ یہی چاردیواری ان کی پہچان کا مضبوط حوالہ بن گئی تھی۔ بچوں کو اسکول کے لئے تیار کرتے اور انہیں ناشتہ دیتے ہوئے خرچے کے پیسوں کا مطالبہ کرتی ہوئی بیوی سے فوری جائے فرار بھی یہی جگہ تھی۔ پرانے ویسپا اسکوٹر پر بچوں کو بٹھا کر اسکول چھوڑتے ہوئے جب وہ کالج والی روڈ پر پہنچتے تو ان کے ماتھے کی شکنیں غائب ہو جاتیں اور ان کی جگہ ایک اطمینان بھری مسکراہٹ چہرے پر ابھر آتی جیسے وہ ڈیوٹی پر نہیں کسی محبوبہ سے ملنے جا رہے ہوں۔
© ©”گجو بھائی کبھی ترقی نہیں کر سکتے، لائیبریرین تھے اور لائیبریرین ہی رہیں گے“ ابھی ابھی کالج لائیبریری سے نکلتے ہوئے گروپ میں یہ آواز وقاص کی تھی۔
”ان کے ابا نے جب ان سے پوچھا ہوگا بیٹا بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ تو معلوم انہوں نے کیا کہا ہوگا“ جواد نے ہاتھ میں اٹھائی ہوئی کتابیں ہمیشہ کی طرح امین کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا تو سارا گروپ چلتے چلتے رک گیا۔
”کیا؟ سب نے کورس میں پوچھا
”لائیبریرین ابا جان“ جواد نے جھک کر کہا تو ایک قہقہ فضا میں گونجا۔
”یار مجھے تو لگتا ہے یہ پیدا ہی بطور لائیبریرین ہوئے تھے۔نرس کو پہلی بار دنیا میں آتے ہی کہا ہوگا ”دیکھوبی بی کتابیں وقت پر واپس کر دینا“ عاطف نے اپنے حصے کا مصالحہ بات کو لگا دیا۔
”اوہ مائی گاڈ عاطف spare us your extra ingredients اب تو ہنستے ہنستے منہ دکھنے لگ گیا ہے“ ماریہ کو تو ہنسی کا بس بہانہ ہی درکار ہوتا تھا۔
”یار اگر دیو آنند صاحب کو لائیبریرین کا کردار کرنا پڑے تو انہیں گجو بھائی سے ضرور مل لینا چاہئے“ شکیل کب پیچھے رہ سکتا تھا۔
”تمھار ا مطلب حلئے اور کپڑوں کی چوائس کے سلسلے میں ناں! یار اتنی فینٹاسٹک چوڑی اور لمبی ٹائیاں اور ایسی کھلی پتلونیں پہننے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔سعید نے بھی تبصرہ کر دیا۔
” میں نے پوچھا تھا ایک دن تو بولے ”حلیے کا کیا ہے عارف میاں۔ منٹو حلیے کی وجہ سے مشہور تھوڑا ہی ہوئے تھے۔ کافکا، جوائسے، ویلز، برنارڈ شا، کیٹس، ٹالسٹائی کیا پہنتے تھے کسے یاد ہے؟ ہاں کیا تخلیق کرتے تھے یہ قابلِ ذکر ہے“۔
”ویسے دیکھا جائے تو پورے حلیے میں ایک جدت ہے اور وہ ہے ان کی ناک پر رکھی ہوئی چھوٹے فریم کی عینک۔ سنا ہے وہ بھی پروفیسر عسکری نے بنوا کر دی ہے“ سب ہنس دئے اور پھر’ یُو نو گجو بھائی، یُو نو گجو بھائی‘ کی آوازیں آئیستہ آئیستہ دور ہوتی گئیں۔
انہوں نے چشمہ اتار کر اسے صاف کرنے کے بہانے کچھ دیر کو آنکھیں موند لیں۔ بند آنکھوں پر اک اک کر کے اترنے والے منظر کتنے شفاف کتنے دلکش ہوتے ہیں ذرا سی دیر میں ساری زندگی کے بیتے ہوئے لمحے کسی فلم کی طرح سامنے لے آتے ہیں۔ انہیں وہ زمانہ یاد آ گیا جب اس شہر کے اسی کالج میں وہ بطور لائیبریرین اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے آئے تھے۔ کتابوں کے بڑے بڑے شیلف کتنی محنت سے دوبارہ ترتیب دئے تھے انہوں نے اور ہر حصے کو ایک ایک نام سے بھی نوازرکھا تھا۔ ’گوشہ ¾ ادب‘، ’خانہءتاریخ‘، ’دینی کتاب گھر‘، ’کنجِ اشعار‘ ، ©زعفران زار‘، ’مرکزِ تراجم‘ ، ’بابِ سخن‘، ’جہاں نما ‘ وغیرہ اور جن موضوعات سے خود گجو بھائی کو زیادہ دلچسپی نہیں تھی ان شیلفوں پر ’کتب ہائے دیگر‘ کا لیبل لگا کر انہوں نے اس لائیبریری کو اک اپنے انداز کی دنیا میں بدل دیا تھا۔ اب تو کتابیں اور ان کا مقام ان کی انگلیوں کو بھی حفظ ہو گیا تھا۔
 لائیبریری کے اندر کا ماحول بھی گردشِ وقت کا بہترین عکاس رہا تھا۔ کبھی ان کو ٹیبل پر بیٹھے طلبا میں سے کوئی پکار کر پوچھتا تھا ” گجو بھائی کوئی اچھا سا مجموعہ کلام آیا یا نہیں؟ ”گجو بھائی انتظار حسین کے تازہ افسانوں کی کتاب مجھے ایشو کیجئے گا پہلے“ ارے گجو بھائی فیض صاحب کی شاعری پر تبصرے کی کوئی کتاب ملے گی“ اور یہ مطالبات گجو بھائی کو جوش دلاتے تھے کہ وہ تاہ ترین فہرستیں تیار کرنے لگ جاتے جسے صدیقی صاحب پرنسپل بھی منظور کر لیتے۔ لیکن وقت کے ساتھ ان آوازوں میں بھی تبدیلی آ گئی تھی ”گجو بھائی فورتھ ائیر کی لڑکیاں کب آتی ہیں لائیبریری میں“۔ گجو بھائی فرزانہ وغیرہ کا گروپ دیکھا تھا کل لائیبریری میںساتھ کون کون تھا؟ ”گجو بھائی آپ نے کبھی محبت کی ہے؟ لیکن اس تبدیلی کے باوجود بھی لائیبریری کی رونق برقرار تھی۔ لائیبریری آنے والے طلبا و طالبات کے شوقِ مطالعہ کے ساتھ ساتھ رنگینیاں بھی دیکھنے کو ملا کرتی تھیں ۔ اس وقت کے نوجوانوں کا دھڑکتے دلوں سے کتابوں میں پھول یا خط رکھ کر محبوبہ کی طرف کتاب بڑھانا اور دزدیدہ نگاہوں سے آنکھوں کے سامنے رکھی ہوئی کتاب کی آڑ سے دور کونے والی میز پر بیٹھی جانِ جاں کو چوری چوری تکنا اور پھر کسی دوست کے شانہ ہلانے پر چونک کر دوبارہ کتاب کی طرف متوجہ ہونا انہیں ابھی بھی یاد تھا۔ اکثر کتابیں لائیبریری میں واپس اندراج کے لئے آتیں تو ذومعنی اشعار بھی ان پر لکھے ہوتے ہر چند کہ کتاب پر واضح طور پر لکھا ہوتا کہ اس پر کچھ لکھنا منع ہے لیکن نوجوان نسل کے وحشی جذبوں کو کون روک سکتا تھااس وقت بھی‘
”گجو بھائی زندگی کا مزہ بھی لیا کریں ورنہ کسی دن ان کتابوں میں دب جائیں گے آپ“ اس وقت بھی تبصرے ہوتے تھے لیکن ذرا لفظوں کا چناﺅ محتاط تھا یا شائد تہذیب نے ابھی بد تہذیبی کی کروٹ نہیں بدلی تھی۔
”کیا مزہ لیں بے چارے۔ اس کے لئے تو حسنِ نظر چاہیئے جذبہءشوق بھی اور یہاں تو دونوں ہی ناپید ہیں“ وجاہت میاں پڑھائی میں لائق فائق تھے اس لئے ان کا کہا ہوا گجو بھائی کو برا نہیں لگتا تھا۔ فقط ایک دہائی کے ساتھ ہی لائیبریری کے اندر کا ماحول بھی بدل چکا تھا۔ اب کتابوں، اخباروں، رسالوں کی آڑ میں ہاتھ پکڑنے اور چھڑانے، کتابوں کے سیکشن سے نکلتے ہوئے ایکدوسرے سے ٹکرانے، گرنے اور تھامنے کے حادثے بھی لائیبریری میں ہونے لگے تھے۔ وہ گلا کھنگار کر گارڈ کے اضافی فرائض بھی سر انجام دیتے رہے اور اس کی انہیں کوئی داد دینے والا نہیں تھا۔
صدیقی صاحب کالج کے پرنسپل خود بھی ا دبی ذوق سے مالا مال اور مطالعہ کے شوقین انسان تھے اور ان کے دور میں ہی گجو بھائی کے لئے لائیبریرین ہونا ایک ایسا اعزاز تھا جس کی بدولت انہیں نہ صرف صدیقی صاحب کی قربت بھی حاصل تھی بلکہ ان کے ملاقاتیوں میں شامل تمام قابل، ذکر ہستیوں سے بھی گجو بھائی کا تعارف بھی تھا اور دوستی بھی۔ اکثر اوقات وہ نجی اور سرکاری محفلوں میںانتہائی احترام سے بلائے جاتے تھے اور صدیقی صاحب کے تعارف کرانے کا انداز بہت انوکھا تھا۔
”ضمیر صاحب ان سے ملئے بھئی یہ ہمارے کالج کے قیمتی خزانے یعنی کتابوں کے نگہدار ہیں غضنفر علی صاحب ۔کہنے کو لائیبریرین ہیں لیکن بہت صاحبِ علم انسان ہیں“۔ اور جب ایک ادارے کا سربراہ کسی کا تعارف یوں کروا رہا ہو تو ملنے والے کے دل میں اس کی توقیر اور بڑھ جاتی ہے۔ گجو بھائی صدیقی صاحب کے بہت معتقد تھے ۔ وہ واحد پرنسپل تھے جو فرائضِ منصبی میں سے کافی وقت نکال کر لائیبریری اور اس کی ترقی کے سلسلے میں پھرپور تعاون کرتے تھے۔ ان کے کالج سے چلے جانے کا صدمہ گجو بھائی کے دل میں بہت عرصہ رہا اور یہ صدمہ کم ہونے کی بجائے وقت کے پہیے کے گھومنے سے اور بھی بڑھ گیا جب خواجہ ظہور نئے پرنسپل نے انہیں پہلی ملاقات کے لئے طلب کیا ۔
”غضنفر صاحب میں نے سنا ہے آپ کی لائیبریری نے خاصی جگہ گھیر رکھی ہے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا الگ ڈیپارٹمنٹ کھولنا چاہتا ہوں اور ظاہر سی بات ہے اس کے لئے ہمیں جگہ تو بنانی ہو گی ۔ کوئی گنجائش نکل سکتی ہے؟ خواجہ صاحب نے انہیں ابھی تک بیٹھنے کو بھی نہیں کہا تھا اور اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتے کہ وائس پرنسپل کے ایک چمچہ قسم کے دوست پروفیسر نے جن کا تعلق انتظامی امور سے تھا فوراََ ایک نقشہ کھول کر پرنسپل کے سامنے پھیلا دیا۔
”سر یہ دیکھئے کالج کے پرانے نقشے میں لائیبریری صرف اتنے حصے پر بنی تھی۔ پھر اس کے ساتھ پرانے اسٹور روم کی دیوار گرا کر اس کمرے کو بھی جو ہال جتنا ہے اس میں شامل کر لیا گیا اور آج سے پانچ سال قبل یہ مین لان سے اضافی زمین کا ٹکڑا بھی لائیبریری میں شامل کر لیا گیا تھا صدیقی صاحب کے زمانے میں کیونکہ اردو ادب کے سیکشن کے لئے غضنفر صاحب کو جگہ کم پڑ رہی تھی“ انہوں نے داد طلب نظروں سے پرنسپل کو دیکھا۔
”سر میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ چل کر لائیبریری کا معائینہ کیجئے اور دیکھئے کہ اب ہماری لائیبریری کا کوئی حصہ بھی ایسا نہیں جو کتابوں سے خالی ہو۔ سر یہ جس اضافی حصے کی بات کر رہے ہیں وہ جگہ طالبعلموں کے بیٹھنے کے لئے کم تھی اس لئے اسے بڑھا کر اس میں یہ گنجائش رکھی گئی کہ اس میں اسٹوڈنٹس بیٹھ سکیں“ گجو بھائی نے مناسب انداز میں دفاع کیا۔
”کتنے لوگوں کی ایک وقت میں بیٹھ کر پڑھنے کی گنجائش ہے غضنفر صاحب اب لائیبریری میں؟
”سر اس شہر کے تمام کالجز میں یہ بات ہمارے لئے فخر کا باعث ہے کہ ہمارے ہاں تقریباََ ایک سو کے قریب طلباﺅ طالبات مطالعے کے لئے اس میں باآسانی سما سکتے ہیں“۔ غضنفر علی نے جیسے گول برابر کر دیا تھا لیکن یہاں تالیاں بجنے کی بجائے دوسرا سوال داغ دیا گیا۔
”کتنے طالب علم اب ایک ہی وقت میں وہاں آتے ہیں جو بیٹھ کر مطالعہ کرتے ہیں آجکل ؟ پرنسپل صاحب تفتیشی افسر لگ رہے تھے۔
اس سوال پر وہ بوکھلا کر رہ گئے تھے کیونکہ گزشتہ چند سالوں کے دوران لائیبریری آنے والے طلبا و طالبات کے گروہ سکڑ کر چند ٹولیوں کی شکل اختیار کر چکے تھے وہ بھی زیادہ دیر کیفے ٹیریا میں یا اوپن ائیر میں میوزک یا پھر کرکٹ گراﺅنڈ میں گزارتے تھے۔ یہاں تو وہ کتابیں ایشو کرانے آتے تھے یا واپس کرنے۔ اور اب کے سالوں میں تو لمبے بالوں اور کانوں میں بالی لٹکائے امراءکے لڑکے لڑکیوں اور No Smoking کے بورڈ کے سامنے کش لگانے والے نوجوانوں کی دوڑ اب کیٹس، ملٹن، شیلے، بائرن، غالب، فیض، میراجی سے نکل کر ملز ایند بون کے رومانی ناولوں یا ویلنٹائن ڈے کی شاعری کی تلاش تک ہی محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ بعض لڑکے لڑکیوں سے کتابیں واپس کرنے کے جتن کرنے پڑتے تھے اور کارڈز پر ان کے سائین لینے کے لئے بھی پیچھے بھاگنا پڑتا تھا۔
”او کم آن گجو بھائی ہو جائے گا۔I will take care of books“ کہہ کر لڑکے لڑکیاں غائب ہو جاتے تھے اور وہ سوچتے رہ جاتے کہ نئی پود کس طرف جا رہی ہےَ۔
”جی غضنفر صاحب اب کتنے اسٹوڈنٹس وہاں بیٹھ کر پڑھتے ہیں“ پرنسپل صاحب نے دوبارہ سوال دہرایا تو وہ اپنی سوچوں کی دنیا سے باہر نکل آئے۔
”سر ۔۔ وہ سر۔۔ کافی تعداد میں آتے جاتے رہتے ہیں سر“ انہوں نے عینک اتار کر پھر لگاتے ہوئے کہا۔
”پھر بھی کتنے؟
”زیادہ تر تو کتابیں ایشو کروا لیتے ہیں سر لیکن پھر بھی دس پندرہ تو موجود ہی ہوتے ہیں“ اتنا اٹک اٹک کر یہ تعداد بولتے ہوئے ان کے پورا وجود پسینے سے شرابور ہو گیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا اس میں ان کی کوئی غلطی تھی۔
”دس یا پندرہ۔ او۔کے۔ اب دیکھیں اتنی کم تعداد کے visitors کے لئے ایک ہال جتنی پوری جگہ کو ضائع کرنا کوئی عقلمندانہ بات نہیں۔ او۔کے۔ آپ کی بات بھی درست ہے میں کل دس بجے لائیبریری کا چکر لگاﺅں گا پھر بات کریں گے اس ایشو پر“ خواجہ صاحب نے انہیں کوئی مسکراہٹ دیئے بغیر بات ختم کر دی اور پرنسپل آفس سے لائیبریری تک کا سفر گجو بھائی کے لئے ایک لمبی مسافت بن گیا تھا۔
اس شام گجو بھائی کو بیٹی کے رشتے کے لئے آنے والوں سے بھی کوئی خاص سروکار نہیں تھا۔ ساری گفتگو کے دوران وہ خاموش ہی رہے جس کا مطلب یہی لیا گیا کہ نازو کی جدائی کا سوچ کر اداس ہیں۔ رات انہوں نے کڑھی پکوڑا کے مینو میں شامل ہونے پر بھی کسی خوشی کا اظہار نہیں کیا تھا اور بیگم جو ہونے والے داماد کی تعریفوں کے پل باندھ رہی تھیں اس پر بھی کوئی ایسا تاثر نہیں دے سکے جس سے پتہ چلتا کہ وہ اس رشتے کے آنے پر خوش ہیں یا ناخوش۔
”دیکھئے وہ تو ان کی اعلیٰ ظرفی ہے جو کہہ رہے ہیں بس بیٹی دے دیں لیکن ہمیں تو بیٹی کو خالی ہاتھ رخصت نہیں کرنا۔ کچھ نہ کچھ تو آپ کے پراویڈنٹ فنڈز سے مل جائے گا۔ میں ڈرائینگ روم اور بیڈ روم کا سارا فرنیچر دونگی نازو کو“َ بیگم کراری آواز میں بولے جا رہی تھیں۔
”اماں بجیا کو ڈائیننگ ٹیبل کا بہت شوق ہے“ چھوٹی نے کہا تو ماں کی آواز میں اور جوش آ گیا۔
”پہلی پہلی لڑکی کی شادی ہے کیوں نہیں دینگے؟ ڈائیننگ ٹیبل بھی دیں گے۔ سنتے ہیں نازو کے ابا“ بیگم نے ان کے کان کے قریب چلا کر کہا تو وہ ”ہاں خدا خیر کرے“ کہہ کر وہاں سے اٹھ گئے۔
”دیکھ لو تمھارے باپ کی حرکتیں۔ ساری عمر میری نہ سنی۔ اب اتنا اہم مسئلہ ہے بیٹی کا اور اٹھ کر چل دئے“ بیگم اولاد کے سامنے پھر باپ کی غیر ذمہ داری کی دہائی دینے لگ گئیں اور وہ سوچنے لگے۔
’ اگر اس ہال کو خالی کروا لیا گیا جو انہوں نے اور صدیقی صاحب نے کتنی محنت سے بنوایا تھا طالبعلموں میں مطالعہ کے شوق کو اجاگر کرنے کے لئے تو پھر کیا ہو گا؟ اور اگر دوسرے حصے میں پارٹیشن کروا دی تو کتابیں کہاں جائیں گی‘۔ غیر ملکی وفود تک ان کی لائیبریری کی فلمیں بنا کر لے جا چکے ہیں۔ ان کی لائیبریری کو کئی انعامات بھی مل چکے ہیں۔ پراویڈنٹ فنڈز تو ریٹائرمنٹ پر ملتے ہیں۔نازو کی ماں جلد شادی کرنا چاہتی ہے۔ ہاں جی بیٹی تو پرایا دھن ہوتی ہے کرنا تو پڑے گا کچھ۔ ’ایسے نایاب نسخے پرانی کتابوں کے اب شہر میں کہاں دستیاب ہیں جو ان کے پاس ہیں لائیبریری میں‘ کیا استعفیٰ دے دوں‘۔ ان کی سوچیں گڈ مڈ ہوتی چلی گئیں۔
”دیکھئے گجو بھائی میں آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں آپ جیسے کتاب دوست اور انسان دوست آدمی کم ہی ہوتے ہیں لیکن کچھ جیزیں وقت کی ضرورت ہوتی ہیں اور ان کا بر وقت کئے جانا ہی سب کی بھلائی کا باعث ہوتا ہے“۔ نئے پرنسپل ان کو تسلی دے رہے تھے۔
 لائیبریری کے معائنے کے دوران ہی فیصلہ ہو گیا کہ دیوار کھڑی کر کے دوحصے بنائے جائیں گے یہاں تک کہ اضافی زمین کا ٹکڑا بھی اس حصے میں شامل ہو گیا۔ ہال کے حصے میں دیوار کھڑی کر دی گئی اور ادب کی لا تعداد کتابیں حکومت کی لائیبریری کو بھجوا دی گئیں۔ گوشہ ¾ ادب سکڑ کر ایک شیلف تک محدود ہو گیا اور باقی تمام جگہ پر رکھے شیلفوں میں جدید ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کتابوں کو بھر دیا گیا۔ جہاں کبھی لائیبریری کا اک وسیع حصہ تھا اب وہاں ایک بورڈ بھی نصب ہو گیا جس پر ’ کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی“ لکھا تھا ۔ وہاں سے گزرنے پر گجو بھائی کو ایک ہی منظر دکھائی دیتا تھا چند انگریزی بولنے والے نئے چہرے اور کمپیوٹر ہی کمپیوٹر۔ یہی نہیں ایک دن کمپیوٹر ان کی لائیبریری میں بھی آن گھسا تھادو سسٹم اینالسٹ نوجوانوں کے ساتھ جو انہیں ایسے سافٹ وئیر کی تربیت دینے آئے تھے جس کے بعد لائیبریرین کا بھی زیادہ تر کام سمجھو کمپیوٹر سے ہی ہونا تھا۔
”کوئی پریشانی کی بات نہیں یہ آپ کی سہولت کے لئے ہے ۔ اس کے بعد آپ کا کارڈز اور الماریوں کے پیچھے بھاگنے والا سسٹم ختم۔ گوگل سرچ سے آپ بیٹھے بیٹھے بتا سکیں گے کہ کون سی کتاب کہاں ہے، کس کو ایشو ہوئی؟ کب واپس کی گئی وغیرہ؟ دونوں نوجوان انہیں ایک مانیٹر کے سامنے ماﺅس کے ساتھ بٹھا کر کافی دن نیاسافٹ وئیر سکھاتے رہے اور اس سے گجو بھائی کی پریشانیوں میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ ان کی اور اسسٹنٹ لائیبریرین شبیر کی دنیا میں اس نئے اضافے کی کوئی ضرورت نہیں تھی‘ وہ اکثر سوچتے لیکن کچھ کر نہیں سکتے تھے۔
”گجو بھائی آپ نے تو کالج کے بہت زمانے دیکھے ہیں بتائیں سب سے اچھا دور کون سا تھا“ سیاست ہردور کے طلبا کا من پسند موضوع تھا اور یہاں بھی کسی پروفیسر کی الوداعی تقریب میں یہ بحث زور و شور سے جاری تھی اور اسٹوڈنٹس نے انہیں دیکھ کر سوچا کہ ان کی رائے لی جائے۔
”سب سے اچھا دور کتاب سے محبت کا دور تھا “ ان کے جواب پر محفل میں خامشی چھا گئی۔ کچھ پروفیسر صاحبان نے سر ہلایا اور کچھ مزید خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے اور گجو بھائی کے ساتھ کوئی کمپیوٹر سافٹ وئیر اسپیشلسٹ اپنی بیرون ملک سے حاصل کی گئی ڈگریوں کی اہمیت پر زور دینے لگ گئے۔ کچھ لڑکے ویب سائیٹ کے فوائد پر بحث کرتے رہے اور گجو اس بات سے دکھی ہوتے رہے کہ ان ساری ٹولیوں میں کوئی بھی کتاب کی بات نہیں کر رہا تھا۔
اس دن لائیبریری کی خاموش فضا میں کچھ رونق دکھائی دی۔ فائینل ائیر کا وہ پٹاخہ سا گروپ جو پاپ میوزک کے علاوہ کسی طرف مائل نہ تھا لائیبریری میںآن دھمکا۔ پہروں خالی پڑی رہنے والی لائیبریری میں ان کا آنا بھی غنیمت تھا لیکن اس سے زیادہ حیران کن ان لوگوں کا سنجیدگی سے کچھ میگزین لے کر خاموش بیٹھ کر پڑھناتھا۔ ابھی وہ اس پر مزید غور کرتے کہ پرنسپل نے کچھ مصنفین کی کتابیں فوری طور پر چیک کرکے انہیں بھجوانے کا کہلا بھیجا اور یوں انہیں اپنے من پسند گوشہءادب تک جانا پڑا۔ لیکن یہ کیا؟ وہ ٹھٹھک گئے۔ پاﺅں گویا زمین میں گڑ کر رہ گئے۔ یہ یہاں کیا دیکھ رہی تھیں ان کی آنکھیں؟ کیا یہ دیکھنا باقی رہ گیا تھا اس مقدس چاردیواری میں۔فکشن اور شاعری کی بڑی بڑی الماریوں کے درمیان ایکدوسرے کی بانہوں میں محبت کا کھیل کھیلتے ہوئے اسی پاپ گروپ کا ایک جوڑا ۔ گجو بھائی کو اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا ۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ اس طرح پکڑے جانے پر بھی کوئی شرمندگی نہیں تھی بلکہ نکلتے ہوئے ان کا ڈھٹائی سے’ No privacy anywhere “ کہہ کر وہاں سے نکلنا تہذیب کے نقطہءانجماد کی انتہا تھی۔ گجو بھائی اپنی سیٹ پر آئے تو گروپ جا چکا تھا اور ان کی سیٹ پر ایک چٹ پڑی تھی جس پر دھمکی نما جملے تھے اس طرح درج تھے۔ گجو بھائی
Keep your mouth shut or you would bear the consequences“ اورغصے سے ان کا چہرہ تمتما اٹھا۔ انہیں پرنسپل صاحب کو فوری طور پر بتانا ہوگا۔ یہ سوچ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
”غضنفر صاحب میں ان لڑکے لڑکیوں کو بلا کر ان کی سرزنش نہیں کرسکتا وہ اس شہر کے رئیسوں کے بچے ہیں اور آپ نے نہیں لیکن میں نے ابھی سروس کرنی ہے“۔ پرنسپل قاسم نیازی صاحب کا اس شہر میں ٹرانسفر بھی تو انہی رئیسوں میں سے کسی ایک کی سفارش پر ہوا تھا اور وہ مجبور تھے لیکن گجو بھائی بھی مجبور تھے کیونکہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اس چاردیواری کا تقدس مجروح ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اور فیصلے کی گھڑی بھی شائد یہی تھی یعنی اپنی اس چاردیواری کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہنا۔’ ہر سفر کے اختتام پر واپسی کا سندیسہ تو رکھا ہوتا ہے چاہے لوٹ کر جانا کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو‘ انہوں نے دکھ سے سوچا۔
نئے لائبریرین کو لائیبریری کا ریکارڈ اور چابیاں سونپنے کے بعد وہ گوشہءادب میں آخری بار آئے۔ آخری بار کنجِ اشعار کی مہک کو سانسوں میں اتارا اور ایک ایک کتاب کو انگلیوں سے ایسے چھوا جیسے وہ الہامی کتابیں تھیں اور اس سے قبل کہ وہاں سے نکلتے یا آگے بڑھتے کہ وہ پیچھے سے اپنا نام پکارے جانے پر مڑے تو منٹو کھڑے ان سے مخاطب تھے۔
”آپ دل چھوٹا نہ کریں گجو بھائی ۔ آپ اکیلے نہیں جا رہے ہم سب آپ کے ساتھ ہی یہاں سے جا رہے ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ رہے اتنا عرصہ اب ہم آپ کے ساتھ رہیں گے۔“ یکایک فیض، دانش، غالب۔ میر، سودا، منٹو ،سب کی آوازیں اس میں شامل ہو گئیں۔
”میرے ساتھ مگر کہاں؟ وہ حیرت زدہ سے تھے۔
 ” ہم الماریوں میں کب رہتے ہیں گجو بھائی ہم تو یوں بھی اپنے قدر دانوں کے دل میں رہتے ہیںاب آپ کے دل
 میںرہیں گے “ سب ہستیوں نے یک زبان ہو کر کہا تو مارے خوشی کے ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ اب گھر واپسی کے سفر میں ان کے قدم بوجھل نہیں رہے تھے کیونکہ وہ اس چاردیواری کو چھوڑ کر نہیں اس کی ساری رونق کو ساتھ لئے جا رہے تھے۔

ایلڈرلی لیڈی (عابدہ تقی)

”بی بی جی ہمارے زمانے میں تو شادی بیاہ پر سادہ سا لال جوڑا بنتا تھا پر اب تو زمانہ ہی بدل گیا ہے“۔ ماسی کبریٰ اسے جوس کا گلاس پکڑاتے ہوئے کہہ رہی تھیں اور وہ انچی ٹیپ ہاتھ میں پکڑے کسی برائیڈل ڈریس کے بلاﺅز کا ناپ چیک کر رہی تھی جو اس کی ٹیم کے ممبرز ایک Dummyکو پہنا چکے تھے ۔ ”پریشر بہت زیادہ ہے کام کا اور آپ لوگ سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ پلیز ڈبل یور اسپیڈ آف ورک مجھے جنید جمال صاحب کو کل یہ سب ڈریسز نمائش کے لئے تیار کر کے دینے ہیں“ وہ اپنی اسٹائلنگ ٹیم کے ساتھ سر کھپا رہی تھی۔
”بی بی جی یہ اتنے سارے لباس کس کے لئے بنا رہی ہیں جی“ ماسی پھر شروع ہو گئیں۔
”نمائش کے لئے بنا رہی ہوں آپ پلیز ماسی گلاس وہاں رکھ دیں“۔ فون کی گھنٹی مسلسل بجے جا رہی تھی جسے اس نے مشکل سے اٹھایا حالانکہ اتنی بھی فرصت نہیں تھی اس کے پاس لیکن دوسری طرف جنید جمال کی آواز جادو جگا رہی تھی۔
”او یس ڈونٹ وری ’جے جے ‘، وی ول بی آن ٹائم۔ آپ شام کو یہاں کا ایک چکر لگا لیں اور ماڈلز کا کیا بنا؟۔ ریہرسل کا کام کیسا جا رہا ہے؟ اور ہاں یہ برائیڈل ڈریس جو میں بنا رہی ہوں اس کے لئے کس کو سیلیکٹ کیا ہے؟۔ کیا ہو رہا ہے جسٹ بریف می؟۔ مارے پریشانی کے اس کی آواز بھی تیز تر ہوتی جا رہی تھی۔
”ریلیکس دس از مائی ھیڈک اور اسے سبرینا ملک پریزنٹ کرے گی۔ شی از آن کیٹ واک ان ریہرسل سیشن جسٹ ناﺅ“ جنید جمال نے جواب دیا تو اس کی پیشانی پر اور بل پڑ گئے۔
”میں تو فرسٹ ٹائم اس کا نام سن رہی ہوں کون ہیں یہ شخصیت؟ اس کے سوال پر جنید جمال کے قہقہے نے اس کا موڈ بھی لائیٹ کر دیا۔
”شی از ا ے چارمنگ لیڈی “ اور پھر تھوڑا وقفہ دیکر Less than you کا اضافہ کر دیا۔
”میں اس وقت شو کی کامیابی میں انٹرسٹد ہوں ورنہ تمھاری ماڈلز کے چارم سے مجھے کوئی انٹرسٹ نہیں“۔ اس کی بات پر دوسری طرف سے بھی کچھ کہا گیا اور پھر فون بند ہو گیا۔
”بی بی جی ہماری بستی میں بھی میری رشتے کی بہن کی ایک لڑکی بھاگ بھری کی شادی ہے جی تو میں نے ان کو بتایا میری بی بی بہت قیمتی جوڑے تیار کرتی ہیں۔ وہ پوچھ رہی تھیں کہ آپ سے دلہن کا جوڑا بنوانے میں کتنے پیسے لگ جائیں گے“۔ ماسی نے للچائی ہوئی نظروں سے ادھ سلے اور خوبصورت کامدار برائیڈل ڈریس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”افوہ ماسی! بھاگ بھری اسے افورڈ نہیں کر سکتی یہ لاکھوں کا ہے لاکھوں کا۔ میں بستی والوں کے لئے نہیں بناتی ہوں یہ جوڑے۔ یہ نمائش کے لئے ہیں باہر کے ملکوں میں جاتے ہیں۔ “ اس نے جوس کا گلاس لوٹاتے ہوئے کہا۔
” او۔کے ٹیم! یہ بلاﺅز ان ساری Dummies پرفکس کریں اور ساڑھیاں پہناتے ہوئے فرنٹ فال کا اور پلو کا بہت خیال رکھیں۔
”نعیم صاحب مجھے بتائیں ٹرانسپورٹرز آئے کہ نہیں یہ ساری ڈمیز ہال میں پہنچانی ہیں کب ہو گا یہ سب۔ اورماڈلز کی میک اپ ٹیم کو فون کرو لیزا پلیز ہری اپ“۔ میک شیور آف ایوری تھنگ ٹو بی پرفیکٹ اینڈ ان ٹائم“ وہ پھر چلانے لگ گئی۔
”ہاں بی بی بہت خوش قسمت ہوتی ہونگی جو یہ جوڑے پہنتی ہونگی ہیں ناں۔ ہائے ہائے غریبی“ ماسی نے آہ بھری اور گلاس اٹھا کر چل دیں۔ ٭٭٭
 ڈریسز اینڈ ڈریسز کے نام سے شروع کی گئی اس کی بوتیک اب باقاعدہ ایک انڈسٹری بن چکی تھی۔ اب تو اس کا نام بھی شارٹ کر کے ”ڈی اینڈ ڈی“ رکھ لیا گیا تھا اور رومانہ مظفر ہی اس کی پہچان تھی۔ کل ” ڈی این ڈی“ کا گرینڈفنکشن تھا اور جنید جمال کے لئے بہت ہی روشن دن۔ کیونکہ جنید جمال کو مینیجنگ ڈائریکٹر کا عہدہ تو پہلے ہی دیا جا چکا تھا اور جلد ہی وہ مینیجنگ پارٹنر بھی بننے والا تھا رومانہ کی مہربانیوں سے۔ بلا شبہ رومانہ نے اس ڈریسز بزنس کو ایک بین الاقوامی سطح تک لانے میں بہت کام کیا تھا اور یہ بات بہت قابلِ ستائش تھی کہ اس نے یہ سب کام اکیلے ہی کر لیا تھا لیکن جب سے جنید جمال نے اسے جوائین کیا تھا اس کے بزنس کو کافی وسعت ملی تھی۔ اور آجکا یہ فنکشن دونوں کے لئے بڑی اہمیت رکھتا تھا۔ رومانہ نے یہ فنکشن ایک بہت بڑے فائیو سٹار ہوٹل میں ارینج کیا تھا جس میں ڈریسز کی نمائش، جیولری کی نمائش اور میوزیکل شو بھی شامل تھا۔ جنید جمال اور رومانہ دونوں ساتھ ساتھ کھڑے مبارکبادیں وصول کر رہے تھے۔ شہر بھر کی ایلیٹ کلاس موجود تھی اور رومانہ آج جتنی توجہ سے خود تیار ہوئی تھی وہ ماڈلز سے بھی زیادہ قیامت ڈھا رہی تھی خاص کر جنید جمال کی ساری توجہ اس پر مرکوزتھی۔ جنید جمال کا کمال تھا کہ اس نے ”ڈی این ڈی“ کی اونر رومانہ مظفر کی نگاہوں میں ایک قابلِ ذکر جگہ بنا لی تھی ۔
 اس کی کام کی لگن اور محنت نے رومانہ کو کافی متاثر کر لیا تھا۔ صرف محنت نے نہیں، اس کی بولتی آنکھوں کے پیام نے، اس کے خوبصورت جملوں اور اس کی شخصیت کے چارم نے بھی رومانہ کو ہر طرف سے گھیر لیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے سے اتنے نزدیک آ چکے تھے کہ ہر طرف یہ تاثر عام تھا کہ دونوں کی یہ انڈرسٹینڈنگ کسی رشتے کی صورت میں انجام پذیر ہو گی۔ یہ بات دونوں کے سرکلز میں بھی محسوس ہونے لگی تھی لیکن دونوں طرف Who cares والا ایٹی چیوڈ جاری تھا۔ پراجیکٹس، پیرون ملک نمائشیں اور ایکسپورٹ یہ سب اتنا مصروف کن اور تھکا دینے والا کام بھی ان کے جذبوں کی راہ میں حائل نہیں تھا۔ لیکن ایک بات دونوں کے درمیان کسی وقت بھی فاصلوں کی خلیج حائل کر سکتی تھی جذبوں کی گہرائی کے باوجود بھی اور رومانہ کو اس بات کا احساس تھا۔
٭٭٭
”تو سب سے پہلے آپ کو یہ خیال کیسے آیا کہ آپ کو ڈریس ڈیزائننگ کا بزنس کرنا چاہئے“ رومانہ مظفر سے یہ سوال پرائیویٹ چینل کے ایک مشہور پروگرام کے لئے کیاجا رہا تھا اور میزبان کے اس سوال پر بہت سارے منظر ان کے ذہن میں اس پل کے ہزارویں حصے میں کسی فلم کی طرح گھوم گئے۔
اس کے کالج کی فئیر ویل پارٹی میں جانے کے لئے اس کے پاس کوئی نیا جوڑا تک نہیں تھا نہ ہی اس کی بیوہ ماں میں اتنی سکت تھی کہ وہ اسکول سے ملنے والی تنخواہ سے اس کے لئے ایک نیا ڈریس بنا سکتیں جہاں اس کے اور چھوٹی بہنوں اور بھائیوں کی تعلیم بھی ان کی تنخواہ ہی کھینچ رہی تھی۔ اور رومانہ کا گروپ 
سارے کا سار ا بہت امیر گھرانوں کی بگڑی ہوئی رئیس زادیوں کا تھا جن کے لئے مہنگے سے مہنگے ڈریسسز کوئی مسئلہ ہی نہیں تھے۔ کالج میں اگرچہ یونیفارم تھا لیکن اس میں بھی صرف رومانہ ہی ذرا گھٹیا قسم کے کپڑے کے ایک ہی یونیفارم میں سارا سال گذار دیتی۔ تو اس مسئلے کا حل اس کی ایک امیر اور دیالو کلاس فیلو نے کر دیا اسے اپنا ایک پہنا ہوا جوڑا دے کر جو اس پارٹی والے دن جچا بھی خوب تھا اور تھوڑے سے میک اپ اور اسی سے مانگی ہوئی جیولری نے اسے بہت حسین اور جاذب نظر بنا دیا تھا۔ اور بعد میں جب وہ ماریہ کو واپس کرنے گئی تو اس نے بڑی نخوت سے کہا۔
”اوہ نیور مائنڈ رکھ لو رومانہ میں ایک بار کسی کو دی ہوئی چیز واپس نہیں لیتی اور رومانہ کو اگرچہ بہت برا لگا لیکن پھر بھی وہ اسے واپس لے آئی۔
اس ایک ڈریس کی بناوٹ پر غور کرتے کرتے اس نے ایک مرتبہ ایک سستے سے کپڑے سے ایک اسٹائلش سوٹ خود سلائی کر لیا اور وہ اس کی امیر سہیلیوں میں پاپولر بھی ہو گیا تو پھر وہ اس سے یہ کام کروانے لگ گئیں۔ 
”پیسے نہیں ہیں بیچاری کے پاس لیکن آئیڈیاز بڑے زبردست ہیں“ اس کی دوستوں کے تبصرے اس تک پہنچتے رہتے تھے اور گریجویشن کے لئے اس نے فیس اور کتابوں کا خرچ بھی یونہی نکالا۔ اپنی سلائی مشین پر وقت اور دماغ استعمال کرتے کرتے۔ کبھی کبھی وقت اور قسمت خود ہی آگے بڑھنے کا راستہ بنا دیتے ہیں۔ اس کی کلاس فیلو لیزا کی مما نے اپوا کے مینا بازار میں ڈریس کی نمائش کروانی تھی اور ان کے ساتھ بھی سارا کام رومانہ نے کروایا تھا۔ یہیں سے اپوا اور پھر اور دوسری خواتین کی تنظیموں نے اس کی سروسز لینی شروع کر دیں۔ پھر اس نے اپنا چھوٹا سا ایک آفس بیگم روﺅف کے ساتھ مل کر بنایا۔ جب آردڑز زیادہ آنے لگ گئے تو منافع کی تقسیم پر ان کی اور رومانہ کی جھڑپ ہو گئی۔ اور یوں رومانہ نے اپنا ایک الگ سیٹ اپ بنا لیا۔
شروع شروع میں تو اسے انویسٹمنٹ کے لئے کافی کوششیں کرنی پڑیں کیونکہ مارکیٹ میں بوتیکس اور ڈریسز سینٹرز کی کمی نہیں تھی تو ایسے میں بزنس لینا اور ایک مقام بنانا بھی خاصا جان جوکھوں کا کام تھا لیکن پھر ایک اینگلو امریکن خاتون وینڈی نورمین کا ساتھ مل جانے سے اسے باہر کے ملکوں میں اپنا کام بھجوانے کا موقع مل گیا اور یوں نیشنل اور انٹرنیشنل لیول پر بے مثال ڈریس ڈیزائننگ کی روایت ڈالنے والی وہ ایک واحد خاتون تھی جس نے دس پندرہ سال لگا کر ایک نمایاں مقام بنا لیا تھا۔ اب فلم ہو یا ڈرامہ، یا شادی کے فنکشنز یا بیرون ملک نمائش رومانہ کی D 'N D کا نام ہر طرف گونج رہا تھا۔ اور جواب میں اس نے اصل حقیقت کو اپنے تک ہی رکھا۔
”بس یونہی میں شروع سے کچھ الگ سا کام کرنا چاہتی تھی you know something creative تو میں نے ڈریس ڈیزائنگ کو ٹرائی کیا۔ آئیڈیا اور کام ھٹ ہو گیا اور اب آپ کے سامنے ہے سب کچھ“۔ اس نے ادا سے مسکرا کر کہا۔
”میڈم اکیلے اتنا کچھ کیا آپ نے یا آپ کے خیال سے کسی اور کا بھی شیئر ہے اس سارے پراجیکٹ پر آپ کا ساتھ دینے میں؟ اس سوال پر اس کی نگاہیں بے اختیار جنید جمال کی طرف اٹھیں جو دور مہمانوں کے ایک ٹولے میں گھرا مگر اسی کی طرف بہت دلچسپی سے دیکھ رہا تھا اور رومانہ نے دھڑکنوں میں عجیب سی ہلچل محسوس کی ۔ ”تمھارے چہرے پر نہیں لکھے ہیں سالوں کے وہ عدد جنہیں تم اپنی بڑائی میں شمار کرتی ہو رومانہ۔ پھر اتنا concious کیوں رہتی ہو ہر وقت اس ایک بات سے ۔ جب مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تو کسی کو نہیں پڑنا چاہئے ، سمجھیں تم ‘ وہ اسے ڈانٹ دیا کرتا تھا جب بھی وہ اپنے اور اس کے درمیان اس فرق کو باور کرواتی لیکن اس ڈانٹ میں ایک یقین دہانی، ایک re-assurance ہوتی اور اسے جذبوں کی سچائی کا یقین آ جاتا۔ اپنے محبوب کی بات کا اعتبار نہ کرنے والی تو کوئی عورت پیدا ہی نہیں ہوئی اس روئے زمین پر‘۔اور اس نے انٹرویو لینے والی ٹیم کو کوئی مناسب جواب دے کر مطمئن کر دیا۔ اور پھر جنیدجمال کا انٹرویو شروع ہو گیا اور وہ مہمانوں میں مصروف ہو گئی۔
٭٭٭
”روما پلیز میٹ سبرینا ملک آج کے شو کی کوئین“ ، رومانہ کو بہت سے فارن ایکسپورٹرز نے گھیر رکھا تھا جب جنید اس سے سبرینا کو ملوانے کے لئے لایا۔
”پلیزڈ ٹو میٹ یو سبرینا اینڈ ویل ڈن۔ یو ور ریئلی ونڈرفل“ اس نے سبرینا سے ہاتھ ملایا۔
”سیم ھئیر“ یہ سب آپ کی اور جنید صاحب کی کوششوں سے ممکن ہوا ہے “ سبرینا نے رومانہ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ اس نے کچھ سن تو رکھا تھا جنید کے اور اس کے دوستانہ تعلق کا اور اس جائزے میں تھوڑا حسد بھی شامل تھا۔’ ساری دنیا نے آج مجھے یعنی سبرینا ملک کو اس کی خوبصورتی پر کامپلیمنٹس دئے تھے اور یہ رومانہ مظفر ، اونہہ یہ جنید کو کیا سوجھی اس خاتون پر مر مٹنے کی؟ سبرینا سوچوں کو چھپائے ہوئے رومانہ مظفر کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ وائلٹ کلر کی انڈین سلک کی ساڑھی اور میچنگ جیولری میں رومانہ میک اپ کے ساتھ اچھی لگ رہی تھی ’ٹھیک ہی ہے مگر جنید کے ساتھ جچتی نہیں عمر میں بڑی لگتی ہے۔ سبرینا نے اپنے سارے تاثرات اپنی مسکراہٹ میں چھپاتے ہوئے رومانہ کی بہت تعریف کرنی شروع کر دی۔
”You are such an intellligent lady and you have a stamina for this kind of demanding business “ جنید بتا رہے تھے کہ آپ کے پاس ان لمیٹڈ آئیڈیاز ہیں ڈریس ڈیزائننگ کے لئے“۔ اس نے رومانہ کے قریب ہوتے ہوئے کہا۔
”تھینک یو ! اب تم جیسا ٹیلنٹ بھی ساتھ ہے تو میں اسے ٹیم ورک ہی کہوں گی“۔ رومانہ کھل کر مسکرا دی اور پھر اسے شائد کسی اور طرف سے آواز آئی تو وہ ایکسیوز می کہتی ہوئی ادھر چل دی جنید جمال کے ساتھ۔
”اس couple کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے سبرینا“ عمیرہ بھی اب کیٹ واک کی تھکن، گوسپ سے اتارنے کوک کا گلاس ہاتھ میں لئے وہیں چلی آئی تھی۔
”Odd Couple“ سبرینا نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
”سنا ہے جنید اور وہ شادی کرنے والے ہیں۔ جے جے کو دیکھا ہے کیسے اسے فلیٹر کرتا ہے“۔ ثانیہ کو بھی اپنی بھڑاس نکالنا تھی رومانہ پر۔
”اماں لگتی ہے اس کی۔ ادائیں دیکھو ذرا۔ میں نے سنا ہے کہ اس نے اپنی wrinklesچھپانے کے لئے فیشل کاسمیٹک سرجری بھی کروائی ہے۔ پوئر اولڈ گرل“۔ کیا کیا کرنا پڑ رہا ہے جنید جمال کو ہک کرنے کے لئے “۔یہ صائمہ تھی۔
”وہ کچھ کرے یا نہ کرے کوئی کیوپڈ کام کر چکا ہے۔ جنید کی باتوں سے لگتا ہے کہ وہ اس میں کچھ زیادہ ہی انٹرسٹد ہے۔ میں نے مسز خلیل کو کہتے سنا ہے کہ دونوں شادی کر لیں گے“۔
”غلط سنا ہے اور اگر صیح بھی سنا ہے تو اب ایسا ہو گا نہیں“ سبیرنا نے اپنے لانبے بالوں کی لٹ کو اسٹائل سے پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا۔
”شرط لگاتی ہو“ ۔ عفت نے ہاتھ آگے بڑھایا۔
”I bet over it“ سبرینا کے لہجے میں کچھ تھا جسے ماڈلز کے سارے گروپ نے محسوس کر لیا تھا ۔ کچھ تو تھا
”جیلسی ہے“ عمیرہ نے چھیڑا
”نہیں یار He is my obsession اور یہ رومانہ مظفر، نو پرابلم فار می‘ اس نے کہا تو سب زور سے ہنس دیں۔
” او یو نو ہی از اے سوئیٹ ہارٹ اور اسے پانے کے لئے میں کیا میں اتنا نہیں کر سکتی؟“۔ وہ بن بن کے بات کر رہی تھی۔
”پرفیکٹلی یار ۔ یو آر مائینڈ بلوئینگ آل ریڈی“ اس کے پرفیکٹ فگر پرماڈرن ڈریس سے جھانکتے گورے بدن کو دیکھتے ہوئے سارے گروپ کو یقین آ گیا تھا۔ ”شی از گوئینگ ٹو وِن جے جے“۔ لیکن کیا ایسا واقعی ہو سکے گا سب نے گردنیں ادھر موڑ کر دیکھا جہاں رومانہ مظفر کھڑی مہمانوں سے باتیں کر رہی تھی ۔ سوہنی کی طرح اس بات سے بے خبر کہ کچے گھڑے کی مٹی پانی میں گھلنا شروع ہو چکی تھی ۔
٭٭٭
”سارے رسالے اور سارے اخبار دیکھنے آئی ہوں میں کل کے فنکشن کےIt was a success “ لیزا کل کے فنکشن کی خوشی منانے چلی آئی تھی اور بہت ایکسائٹڈ تھی۔
”ارے ہاں اس فنکشن کا کوریج تو زبردست ہے“ رومانہ مارننگ نیوز میں اپنی تقریب کا کوریج کم دیکھ رہی تھی اور یہ زیادہ سوچ رہی تھی کہ وہ جنید جمال کے ساتھ تصویر میں کتنی شاندار لگ رہی تھی اور اس کا وہاں سے نظریں ہٹانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔
”جنید نے کچھ کہا تم سے ،مطلب شادی کے پروپوزل کے بارے میں “ لیزا نے بھی اخبار برابر دیکھتے ہوئے پوچھا۔ 
” سنو لیزا، اگر عورت عمر میں مرد سے کچھ سال بڑی ہو تویہ جو کچھ سالوں کا فرق ہے وہ ان کی محبت کاکوئی sad event ہی بن جاتا ہے کہیں نہ کہیں آ کر“ وہ چائے بناتے ہوئے علیزہ اپنی واحد دوست سے اپنے خدشات شئیر کر رہی تھی۔
”او کم آن رومانہ کس قسم کی باتیں لے بیٹھی ہو تم ۔ اگر مرد عمر میں بڑا ہو ا عورت سے اور محبت سچی ہو تو کوئی فرق پڑتا ہے ان کے آپس کے ریلیشن شپ میں؟۔ لیزا نے الٹا اسی پر سوال کر دیا۔
”عورت کو اس لئے فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس کی محبت کی بنیادیں جذبوں کی گہرائی پر ہوتی ہیںلیکن مرد کے ہاں کہیں نہ کہیں کوئی extreme decision کرنے کی گنجائش نکل آتی ہے۔ “
”لُک ڈئیر روما میں کافی ایگزامپلس کوٹ کر سکتی ہوں اس پوائینٹ کی فیور میں جہاں عمروں کے گیپ سے بھی کامیاب شادیاں ہوئی ہیں اسی دنیا میں اسی گلوب پر“ لیزا خاصی جذباتی ہو رہی تھی۔
”اچھا ! آئی وِل لو ٹُو ھیئر آل آف دیم، وَن بائی وَن“ ۔ رومانہ کی دلچسپی بڑھ رہی تھی یا پھر وہ اپنے دل میں بنے ہوئے محبت کے گھروندے کو کسی تباہ کُن لہرسے بچانے کی تیاری کرنا چاہ رہی تھی۔
”آئی ایم ناٹ اے ویری ریلیجس پرسن لیکن پھر بھی اتنا جانتی ہوں کہ ہمارے دِین میں عمروں کے فرق سے شادیوں کی مثالیں ہیں جہاں خواتین کے چند سال بڑے ہونے نے بھی رشتوں کے تقدس کی مثال قائم کی“۔
”وہ سب مثالیںہماری سوسائیٹی میں عورت کو سپورٹ دینے کے لئے ناکافی ہیں ،یو نو ھاﺅ آر سوسائیٹی ازلایک؟“ رومانہ کا رویہ منفی ہو رہا تھا آج۔
”چلو ماڈرن امریکن بھی کئی مثالیں ہیں کہو تو دوں اب دیکھو ناں وہ پاپ سنگر ہے ناں مائیکل جیکسن اور ایلزبتھ ٹیلر“ لیزا بات پوری کرنے سے پہلے ہی ہنس پڑی۔
”شٹ اپ لیزا  You are being nasty nowوہ بھی کھلکھلا کر ہنس دی تو اس ہنسی میں اس کی پریشانی بھی کہیں تحلیل ہو گئی۔ اسے ماضی کی سب باتیں یاد آنے لگ گئیں ۔ ’مجھے زندگی کی ساتھی ایک سمجھدار عورت چاہیئے تمھاری طرح کی ‘ یہ بھی وہ بارہا کہہ چکا تھا۔
 ’جتنے ہمارے خیالات ملتے ہیں رومانہ ، ہمیں تو بہت پہلے ہی شادی کر لینا چاہئے تھی خیر اٹ از نیور ٹُو لیٹ ‘ اسے یاد آیا ایک بزنس میٹنگ سے آتے ہوئے وہ کتنا جذباتی ہو رہا تھا۔ اور جانے کتنے خوبصورت لمحے ایک ایک کر کے رنگوں کی دنیا آنکھوں کے سانے بسانے لگ گئے۔ خاص طور سے اُسے کیفے کا وہ منظر یاد آ گیا جہاں جنید جمال نے اس کے اور اپنے ویڈنگ ڈریس کی بات کی تھی۔
”اپنی شادی پہ کیسا ڈریس بناﺅ گی مائی ڈئیر لیڈی روما“ وہ دونوں ایک کیفے میں بیٹھے تھے اور جنید اس کی طرف جھکا ہوا اسے لچسپی سے دیکھ کر پوچھ رہا تھا۔
”مم۔۔میں نے سوچا نہیں کبھی“۔ ایک دم چہرہ بلش کرنے لگ گیا تھا۔
”کم آن، ابھی نہیں سوچو گی تو پھر کب سوچو گی میم“ اس نے تھوڑا ادب سے سر جھکانے کی ایکٹنگ کی تو وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔
”کسی نے مجھے پروپوز ہی نہیں کیا ابھی تک“۔ وہ اپنی خالی انگلیوں کی طرف دیکھنے لگ گئی جس میں ایک انگوٹھی کی کمی تھی۔
”آپ کس سے چاہتی ہیں کہ وہ آپ کو پروپوز کرے “؟ سوال بے حد ڈائریکٹ تھا۔
”بس کوئی ایسا کہ جو میرے ساتھ دور تک چلنے کی سکت رکھتا ہو Someone caring and sharing“ وہ بات کہتے کہتے رکی۔’کبھی سوچا نہیں تھا ایسا پہلے وہ تو کام کرتے کرتے ایک مشین بن گئی تھی اور اب اس ورکنگ روبوٹ کو دوبارہ عورت کا روپ دھارنے میں کتنا مزہ آ رہا تھا۔
”میرے جیسا چلے گا؟ جنید نے ٹیبل پر پڑے گلدان سے ایک پھول کھینچ کر اسے پیش کرتے ہوئے کہا۔
”مطلب؟“ وہ جیسے انجان بن گئی ایکدم۔
”مطلب کہ میرے جیسا ڈیم اسمارٹ، ہینڈسم، گڈلکنگ، کئیرنگ اینڈ شئیرنگ اینڈ بلا۔بلا۔۔۔بلا۔۔۔“ وہ بات ختم کر کے ہنس دیا تو روما کو لگا کہ ساری فضا مسکرا اٹھی ہو۔ دل اس زور سے دھڑکا کہ اسے گہری گہری سانسیں لینا پڑیں، دور کہیں شہنائی گونجتی ہوئی سنائی دینے لگ گئی۔ اوہ اس نے پہلے کب سوچا تھا یہ لمحہ بھی آئے گا زندگی میں۔
”چاہے وہ مجھ سے عمر میں کچھ سال چھوٹا ہو پھر ؟ رومانہ نے سوال indirect کر دیا۔
”اور اگر اس کے چند سال چھوٹے ہونے کے باوجود بھی اس کے جذبوں کا وزن زیادہ ہو تو پھر؟ خیر چھوڑو اس بے معنی بات کو۔ہاں تو پھر کیسا ڈریس ہونا چاہئے آپ کی ویڈنگ کا“ اس نے پھر سوال اس کی طرف اچھالا۔
”سوچوں گی“۔ کئی اچھے اچھے برائڈل ڈریسز اس کی آنکھوں کے سامنے لہرانے لگ گئے جو اس نے تیار کئے تھے ساتھ ساتھ ان دلہنوں کے چمکتے ہوئے چہرے بھی جنہوں نے وہ برائڈل ڈریسزپہنے تھے۔
”اور میرا ڈریس ؟ اس پر بھی تم ہی کام کر لینا ویسے بھی میں تو پراجیکٹ کو جبھی ہینڈل کرتا ہوں جب وہ پرفیکشن کے ساتھ سامنے ہو“۔ اس
 نے رومانہ کے کانوں کے جھمکے کو انگلی سے چھیڑ دیا۔ اور اس ایک جیسچر نے رومانہ کی دھڑکنوں کے تار چھیڑ دئے۔
 ”Falling in love with a boy like you is easy, so easy “ سی۔ ڈی پلئر پر ٹینا چارلس اپنے مخصوص اسٹائل سے گا رہی تھی ا ور وہ اپنے بستر پر نیم دراز اس گانے کے میوزک کے ساتھ ساتھ اپنے جھمکے کو بار بار لہراتی رہی تھی ایک نشیلی مسکراہٹ کے ساتھ۔ 
اور اب لیزا کی بات سے اسے سب یاد آ گیا تھا۔ وہ آپ ہی آپ مسکراتی چلی گئی۔
 لیکن اب تو کافی عرصہ سے جنید نے اس ٹاپک پر کوئی بات بھی نہیں کی تھی۔ بلکہ ان کی ملاقاتوں میں بھی کافی طویل وقفے آنے لگ گئے تھے۔ زیادہ تر فون پہ بات ہوتی تھی اور کبھی کبھی بزنس لائیک فضا میں میٹنگ۔ جانے کیا ہو گیا تھا وہ مصروف رہنے لگ گیا تھا مگر کہاں؟۔ میں نے پتہ کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ مگر کیوں۔ میں ججھکنے لگ گئی ہوں یا پھر شائد وہ مجھے اوائڈ کر رہا ہے اتنا کھلم کھلا اظہار کرنے کے بعد۔ ’ تو کیا ہوا میں اسے خود یاد دلا دونگی کسی طریقے سے‘ وہ مسکرائی۔ پھر میں اسے بتاﺅں گی کہ اپنا برایئڈل ڈریس تیار کر چکی ہوں میں جو سب سے اسٹائلش ہے اور جنید وہ تو ہے ہی پرنس اس کے لئے بھی کوئی شاندار ڈریس ہونا چاہئے۔ وہ سوچوں میں بہت دور جا چکی تھی۔
 ”او۔کے ڈئیر اب کچھ کھانے کو دو میں نے ناشتہ بھی نہیں کیا اور تمھاری طرف چلی آئی“ لیزا نے آواز لگائی تو وہ خیالوں کی دنیا سے لوٹ آئی۔
”او۔کے۔ چلو کچن میں خود ہی کچھ کرتے ہیں اور جنید کو فون بھی کرتے ہیں اس کے بعد“ وہ دونوں کچن میں آ گئیں۔
”روما ! تمھیں پتہ ہے سبرینا کیا کرتی پھر رہی ہے آجکل“ لیزا کافی عرصے سے رومانہ سے اس موضوع پر بات کرنا چاہ رہی تھی
”کیا کر رہی ہے ماڈلنگ بھئی what else she can do ایک ماڈل تو وہی کرے گی ناں جو اس کا جاب ہے“۔
”یہ تمھیں کس نے کہا بائی دی وے جاب والا قصہ۔ یقیناََ جنید نے“َ لیزا کا خیال بالکل درست تھا۔
”ہاںجے جے کہہ رہا تھا کہ شی از ویری پروفیشنل I mean in her performance on the show“ اس نے بے نیازی سے جواب دیا۔
”اور اس ماڈلنگ پرفارمینس کا نہیںبتایا جو وہ جے جے کی لائف میں کر رہی ہے آجکل“۔ لیزا کو غصہ آ رہا تھا۔
”نہیں نہیں یار۔ ماڈلز جنید جمال کا کبھی بھی انٹرسٹ نہیں رہیں۔ وہ ایک پرانی ویلیوز والی فیملی سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی اماں اور بہنوں سے میں ملی ہوئی ہوں۔ وہ بھی کنزرویٹو خیالات رکھتی ہیں“ ٹوسٹر میں توس جلنے کی بوآنے پر دونوں اچھل پڑیں۔
”تم بھی ناںبات کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہو گوسپ مائینڈڈ“ رومانہ اب انڈے فرائی کرنے لگ گئی تھی اور اس کے چہرے پر پھیلے اپنے محبوب پریقین کی روشنی اتنی زیادہ تھی کہ لیزا نے کچھ کہنا چاہا لیکن پھر موضوع بدل دیا۔
” فائن، فائن یار تم جنید جمال کو مجھ سے زیادہ بہتر جانتی ہو۔ ہاں آج شام کلب کی پارٹی میں میں کیا پہنوں ؟اور تم کیا اسپیشل کوسٹیوم نکالو گی وہ لہنگا ہی پہن کے دکھا دو جو اپنی ویڈنگ کے لئے بنایا ہے ’ ڈی اینڈ ڈٰ ی‘ کیr owneنے“ لیزا پھر شرارت پر اتر آئی تھی۔
”شٹ اپ بکواس بند کرو فی الحال اینڈ بی اے نائس بے بی اینڈ کیری دس بریک فاسٹ ٹو دی ٹیبل“ رومانہ نے اسے آرڈر دے ڈالا۔
اور اب ”یس باس“ کہنے کے سوا لیزا کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔
٭٭٭
کلب کی گیدرنگ میں اس کی آج جنید جمال سے ملاقات ہونی تھی۔ ’ وہ پارلر میں تیار ہوتے ہوئے سوچ رہی تھی۔’اور جب وہ مجھے ڈراپ کرنے آئے گا تو میں اس سے ڈائریکٹ بات کروں گی کہ ان کی شادی کے سلسلے کو آگے بڑھنا چاہئے اب ۔‘ اس سے آگے سوچنے سے ہی وہ بلش کر گئی اور یوں بھی گاڑی اب پارکنگ میں پارک کر چکی تھی وہ اور محبت پر اس کے یقین نے اس کے چہرے پر بہت سے رنگ بکھرا دئے تھے۔
”اوہ واﺅ روما ! واٹ اے بیوٹی آر یو“ اسے تانیہ نے کلب کے دروازے پر روک لیا۔
” تھینک یو! جنید کو دیکھا ہے وہ آئے ہیں کیا“ ؟ اس نے اپنی تعریف پر مسکرا کر اگلا سوال یہ کیا۔
”ہاںابھی کسی کا فون ریسیو کرنے گئے ہیں مینجر کے کمرے میں“ تانیہ نے بتایا تو وہ سیدھی وہاں چل دی۔ جنید ڈارک گرے سوٹ میں کافی ہینڈ سم لگ رہے تھے اور ہنس ہنس کر باتیں کرتے ہوئے اور بھی چارمنگ۔ وہ دبے پاﺅں قریب چلی آئی لیکن دروازے کے پاس اپنا نام سن کر اس کے پاﺅں رک گئے۔
”سبرینا ! کم آن ،میں رومانہ سے شادی کرونگا۔ مائی گاڈ یہ اسٹوپڈ آئیڈیا تمھیں آیا کیسے؟۔ یہ جنید کی آواز تھی وہ لڑکھڑا گئی۔میں ذرا فرینڈلی نیچر کا آدمی ہوں اور اس سے شروع ہی سے ایک دوستی سی ہے لیکن وہ سمجھ جائے گی۔ میرا اور اس کا رشتہ خالص بزنس ریلیشن شپ ہے اور
 I respect her because she is an elderly lady.۔ اور یوں بھی رومانہ مظفر مجھے اب مینیجنگ پارٹنر بنانے والی ہے ذرا سا اوربرداشت تو کرنا ہو گا ۔
اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ یہ جاننے کے باوجود بھی کہ مرد کبھی بھی قابلِ بھروسہ ساتھی نہیں ہوتا، وہ اس پر مر مٹی تھی۔ اور ساتھی تو کیا وہ تو ذرا دیر کو قابلِ اعتماد ہمسفر بھی نہیں ہو سکا۔ نہ جانے کب سے اس کے یقین کی چادر کو تار تارکر رہا تھا؟ نہ جانے کب سے اپنے لالچ کی عمارت رومانہ کے نازک خوابوں کی زمین پر رکھ رہا تھا۔ پھر مجھ پرکیوں ان سارے دنوں میں کھل نہیں سکا وہ شخص اپنی اصل نیچر کے ساتھ‘ I made a fool of myself ۔ مجھے چہروں کے ماسک کے پیچھے سے اصل چہرے دکھائی کیوں نہیں دیتے۔ میں اس جیسے opportunist کے لئے ایک ’ایلڈرلی لیڈی ‘ ہوںاور بس، اور وہ سارا التفات اس کے اپنے مالی اور ذاتی فائدے کی خاطرتھا۔ ”رومانہ مجھے بزنس پارٹنر بنانے والی ہے“ اس کے الفاظ کانوں میں گونج رہے تھے ’ ’وہ ایک ایلڈرلی لیڈی ہے“۔ ’او مائی گاڈ آئی ہیٹ ہم ‘ نہیں نہیں آئی ہیٹ آل دی مین ان دی ورلڈ‘ وہ سوچے جا رہی تھی ۔ ’فریبی، مکار، دھوکے باز‘، مرد کی صرف یہی Definition ہے اور بس ۔ اور پھر تھوڑی دیر گاڑی سڑکوں پر بے مقصد دوڑانے کے بعد کچھ سوچ کر اس نے گاڑی ایک سمت کو موڑ لی۔
٭٭٭
”اوہ بی بی جی آپ اور ہماری بستی میں“ ماسی کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ یہاں آ گئی تھی کچی بستی میں اس کی ماڈرن سی مالکن اور ماسی کے ہاتھ پاﺅں پھولے جا رہے تھے مارے خوشی کے۔
”ماسی! تمھاری بہن کی لڑکی بھاگ بھری کی شادی کب ہے“؟ اس نے گاڑی سے اتر کر ساری بستی کی عورتوں پر نظر دوڑاتے ہوئے پوچھا جو جانے کہاں کہاں سے ایک منٹ میں اکٹھی ہو گئی تھیں۔ میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس عورتیں اور ننگ دھڑنگ بچے سب اسے دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔
”اوہ وہ جی نئے چاند کی بارہ تاریخ پر“ ماسی نے خوشی سے کہا۔ زبیدہ بڑی غریب ہے بھاگ بھری کی ماں جی۔ پر میں نے کہا تھا تو فکر نہ کر میری مالکن ضرور کچھ نہ کچھ مدد کریں گی“۔ ماسی خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھیں۔ ”آئیںناں بی بی جی“۔
”نہیں میں جلدی میں ہوں، اندر نہیں آ سکتی“۔ ’کتنے کام کرنے ہیں ابھی اس نے سوچا، ’اپنے وکیل کو فون کر کے جنید کی مینیجنگ پارٹنرشپ کے کاغذات کی تیاری کینسل کروانا اور اپنے بزنس کو باہر شفٹ کرنے کا اعلان، پریس کانفرنس اور اپنے سارے Assests کا دفاع جنہیں مردار گوشت سمجھ کر گدھ کی طرح نوچ لینا چاہتا ہے وہ۔‘ جذبے ضائع کر دئے مگر اپنے ایسٹس تم پر ضائع نہیں ہونے دونگی جنید جمال میں کوئی ایسی کمزور عورت بھی نہیں‘ وہ فیصلہ کر کے مطمئن ہو گئی۔
”ماسی تم بھاگ بھری کولے کر میرے گھر آ جاﺅ کافی چیزیں ہیںمیرے پاس بھاگ بھری کی شادی کے لئے اور وہ لہنگا اور جیولری وغیرہ “ ۔ اس نے گویا حکم صادر کرتے ہوئے کہا۔
” بی بی جی آپ تو کہتی تھیں کہ بہت مہنگے ہیں یہ جوڑے ، بھاگ بھری اسے وہ ۔۔ وہ ۔۔کیا کہتے ہیں افورڈ نہیں کر سکتی“۔ ماسی نے اس کا بولا ہوا جملہ یاد کر رکھا تھا۔
”بھاگ بھری افورڈ کر سکتی ہے ماسی! لیکن میرے جیسی کوئی ’ایلڈرلی لیڈی ‘ نہیں۔“ اس نے گویا اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے ایکسیلیریٹر پر پاﺅں دبایا اور گاڑی زن سے دھول اڑاتی ماسی کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
”اب پتہ نہیں یہ کیا بلاہے ’ ایلڈرلی لیڈی“ ماسی نے اس کے الفاظ دہراتے ہوئے کہا اور زیتون اور زہراں کو اپنی طرف دیکھتا پا کر فوراََ بات بنا لی۔” مجھے کہہ رہی تھیں بی بی ادب سے، میرے ساتھ بی بی انگریزی میں باتیں کرتی ہے ناں تو مجھے سب سمجھ آتی ہے۔ چلو بھاگ بھری سے کہو جلدی تیاری کرے“۔ ماسی اور سب کچی بستی والی عورتیں بھاگ بھری کو بلانے چل دیں۔








کلُوری (افسانہ) عابدہ تقی


اُٹھ مردار حمیدہ۔۔۔مر جائے تُو۔۔ کھوتے کہوڑے (گدھے گھوڑے) بیچ کے سوئی پڑی رہتی ہے“۔ شیداں نے چھوٹی سی حمیدہ کو جھنجھوڑ کر ہلایا تو وہ آنکھیں ملتی ہوئی اٹھ بیٹھی۔
”کیا ہے اماں؟ اس کے لڑکپن کی نیندسے اس کی آنکھ کا خود کھلنا تو ممکن نہیں تھا تو پھر گھر میں صبح اس کی یہی درگت بنتی تھی کیونکہ وہ دس سال کی ہی سہی چار بہن بھائیوں میں بڑی تھی ۔ کبھی کاکے کو گود میں لینے کے لئے تا کہ ماں اس کے ابا اور بے بے کے لئے ناشتہ بنائے اور کبھی کسی بہن بھائی کو سنبھالنے کے لئے۔ اب تو ایک مصیبت اس سے بھی بڑی تھی۔ حکومت کے بجلی کے بعد پانی کے ادارے نے بھی راشن بندی کر دی تھی۔ ہر روز اخباروں اور ٹی وی چینلز پر رپورٹیں آتیں کہ ڈیم میں پانی کا لیول کتنا کم ہو گیا ہے اور شہریوں کے استعمال کے لئے اسے جاری رکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کی راشن بندی کی جائے۔ یوں حکومت تو فیصلہ سنا کر مطمئن ہو گئی کہ گھروں
 کے نلکوں میں پانی ایک دن آئے گا اور اک دن نہیں آئے گا۔ البتہ کمیٹی کا نلکا جو باہر عام استعمال کے لئے لگا تھا اس میں پانی آتا تھا لیکن اس میں بھی پانی آنے کا کوئی وقت مقرر نہیں تھا۔ واسا والوں کا جب جی چاہتا تھا پانی کھولتے تھے ۔ اس کے محلے کی سب ہم عمر لڑکے لڑکیوں کا کام یہی تھا کہ صبح سب سے پہلے اپنی اپنی بالٹیاں یا ڈول لے کر قطار میں سب سے پہلے جا کر رکھ دیتے اور کچھ بچے پانی حاصل کرنے میں لڑ جھگڑ کر کامیاب ہو جاتے کیونکہ پانی آئیستہ آئیستہ آنا شروع ہوتا اور دو یا تین بالٹیوں کے بھرنے کے بعد دم توڑ دیتا ۔ اس کام میں کئی بار وہ پینو، عذرا، عنیتاں اور کلثوم سے لڑائی کر چکی تھی۔ اس دن تو اس کی بالٹی سب سے پہلی تھی اورابھی وہ پوری بھری بھی نہیں تھی کہ پینو نے کھینچ کے پرے کر دی۔ بس پھر کیا تھا دونوں نے ایک دوسرے کے بال نوچے، ناخن مارے اور یوں باقی لڑکیوں اور لڑکوں نے
 موقع کا فائدہ اٹھاتے ہی ان کی بالٹیاں اور پیچھے کھسکا دیں۔ آدھی چھل چھل کرتی بالٹی لے کر جب وہ گھر پہنچی تو اماں تک خبر پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔۔ اسے ماں سے بھی دو گھونسے کھانے پڑے ۔
” مرنے جوگی تجھے سمجھایا ہے کتنی بار۔۔ پانی کی بالٹیاں بھر کر آواز دے دیا کر مجھے‘ اب سارے برتن گندے ہیں، کپڑوں کی دھلائی الگ رکھی ہے اس پر ہانڈی روٹی کا سیاپا (بکھیڑا)۔ چل دفع ہو تجھ سے کوئی کم نہیں ہوتا۔ “ یا اللہ ان کمیٹی والوں کو پوچھ یا اللہ ان یزیدوں سے حساب لے جو بوند بوند پانی کے لئے ترساتے ہیں۔ لیڈر بنے پھرتے ہیں اور عوام کے دکھوں کی کوئی خبر نہیں“۔ ماں اسے ڈانٹ کرکمیٹی والوں اور حکومتی پارٹی والوں کو بد دعائیں دینا شروع ہو جاتی اور وہ کونے میں بیٹھ کر تھوڑی دیر روتی رہتی اور پھر سہیلیوں کے آواز دینے پر ”اماں میں آئی“ کہہ کر چھوٹے بہن بھائیوں کو لے کر سامنے خالی پلاٹ میں جسے سب بچوں نے اپنا پارک بنا رکھا تھا کھیلنے چلی جاتی۔

کہنے کو ان کی بستی ”فاروق پور“، شہر کا حصہ تھی لیکن بس نام کا ہی۔ پکی اینٹوں کے چھوٹے چھوٹے آمنے سامنے مکانوں کی قطاروں کے درمیان سے گزرتی ہوئی تنگ پکی گلی جسے ٹیکسی، رکشہ، چھوٹی ویگنوںاورموٹر سائکل والوں نے تو باقاعدہ بڑی سڑک سمجھ رکھا تھا کیونکہ دو بڑی شاہراہ تک جلدی پہنچنے میں یہ تنگ گلی شارٹ کٹ کا کام دیتی تھی۔ اسی لئے بظاہر اس پکی گلی میں جگہ جگہ گڑھے پڑ گئے تھے جن میں بارش کے بعد کئی دنوں تک پانی جمع رہتا تھا۔ رہائشی لوگ زیادہ تر موٹر میکنیک تھے یافیکٹریوں کے مزدور، کچھ پڑھے لکھے نچلے درجے کے ملازم پیشہ افراد بھی یہاں آباد تھے اور وہ بھی جن کے گھروں کے مرد کمانے کے لئے دوبئی یا مشرقِ وسطیٰ کے دوسرے ملکوں میں کام کے لئے گئے ہوئے تھے۔ بچوں کو اسکول بھیجنے کے بعد عورتیں ریڑھی والے سے سبزی خریدنے کے بہانے اپنے دکھڑے بھی رو لیتیں اور پڑوسنوں کی دعوت پر ” آﺅ ناں بہن تھوڑی دیر بیٹھتے ہیں“ پر ایک دوسرے کے گھروں میں بیٹھ کر سبزی کے بڑھتے ہوئے داموں سے لے کر سیاسی ابتری تک اور ٹی وی پر دکھائے جانے والی کسی مظلوم عورت کی داستان پر کافی آہیں اور آنسو ایک دوسرے سے بانٹ لیتی تھیں۔
رشیداں بھی اسی بستی میں اپنے چار بچوں کے ساتھ چھوٹے سے گھرمیں جو ایک کمرے ، چھوٹے سے باورچی خانے اور غسل خانے پر مشتمل تھا رہتی تھی۔ بچوں کی بے بے کی منجی برآمدے میں لگائی ہوئی تھی اور بارش دھوپ سے بچا ¾و کے لئے چِک نے دیوار کا کام سنبھال رکھا تھا ”بے بے کہتی تھی اس کا فائدہ ہے۔شام کو چِک اٹھا کر صحن سے کھلا آسمان اور تازہ ہوا کا مزہ لے سکتے تھے بالکل ایسے جیسے وہ گا ¾وں میں لیتی تھیں حالانکہ یہ صحن ان کے تو تین ڈگ بھرنے کے بعد باہر کے دروازے پر جا کر ختم ہو جاتا تھا لیکن پھر بھی انہیں یہ گاﺅں کی یاد دلاتا تھا۔ اللہ رکھے یہ گھر بھی تب ہی بن سکا تھا جب ظہور احمد اس کا لاڈلا پُتر،رشیداں کا میاں کچھ عرصے کے لئے دوبئی گیا تھا لیکن پھر دوبئی کی بڑی بڑی عمارتیں جب بن کر آسمانوں کو چھونے لگیں تو یہی مزدور عربوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے۔ بس پھر دھڑا دھڑ لوگ مزدوری سے فارغ ہو کر واپس آنے لگے۔ ظہور نے باہر رہ کر ایک کام اچھا کیا تھا وہ یہ کہ ڈرایﺅری سیکھ لی تھی اور اب وہ کسی دفتر میں ڈرائیور لگ گیا تھا جہاں
 سے اسے تنخواہ عربی ریالوں میں تو نہیں ملتی تھی لیکن پاکستانی روپوں میں اتنی مل جاتی تھی کہ وہ اور اس کی بیوی اخراجات کی مّدوںپر سارا مہینہ جھگڑ سکیں اور اس کی بیوی کمیٹیاں ڈالنے کا خواب دیکھتی رہے کچھ پیسے بچانے کے لئے تا کہ آڑے وقت میں کام آ سکیں۔ لیکن ظہور احمد کو ایک ترکیب سوجھ گئی تھی۔
 بستی کے پیچھے جہاں دریا ئی نالہ بہتا تھا وہاں بھینسوں والوںکا ڈیرا بھی تھا وہیں سے گاماں دَودھی انہیں دودھ دینے آتا تھا۔ ظہور احمد نے بے بے کے مشورے کے مطابق اس سے بزنس کی بات کر کے ایک بھینس خرید کر اس کے گلے میں شامل کر دینے کی تجویز پیش کی تا کہ کچھ کمائی آ جایا کرے۔ لیکن گامے کی شرطیں کڑی تھیں۔
”بھر ا (بھائی) ظہور جانور رکھنا کوئی کھیل نہیں ہے وڈا جگرے والا کم اے میڈا بھرا! چارہ پٹھے ،کھلی چوکر، گوبر گند سنبھالنا اور جانوروں کو بیماری سے بچانے کا خیال رکھنا، میں دوسرے کے جانور کی یہ ذمہ داری نہیں لے سکتا بھرا“۔ گاماں پہلے تو صاف مکر گیا۔ لیکن جب ظہور نے وعدہ کیا کہ پہلی کٹی(بچھیا) وہ گاماں کو دے گا تو پھر گامے کی سوچ بدل گئی۔ لیکن ظہور کو اس نے صاف بتا دیا۔
”اور ہاں دودھ کا حساب روز کا روز ہو گا میں مہینے کا ووعدہ نہیں کرتا مجھے حساب کتاب کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جتنا دودھ روز بکے گا تمھارے جانور کا، اتنے کے پیسے آ کر روز لے لینا ۔ پر ویکھ بھرا جی! اپنے جانور کی دیکھ بھال میں میرا ہاتھ بٹانا پڑے گا “ گامے کا یہ کہا ہوا بھی مان لیا گیا۔
”چل بھائی میں اور میری بیوی خود کر لیں گے اپنی بھینس کا کام“ اس نے کہا تو اندر کپڑے تہہ کرتی رشیداں کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اس کے اور تھوڑے بکھیڑے ہیں کہ وہ بھینس کا کام بھی کرے گی“ اس نے ظہور سے خوب لڑائی کی۔
”او نیک بختے ہر وقت اوپر کی کمائی، اوپر کی کمائی کی رٹ لگائے رکھتی ہے۔ بے ایمانی تو مجھ سے ہوتی نہیں ۔ اضافی آمدنی کا یہی طریقہ یہی مجھے سمجھ میں آیا ہے۔ میں خود کر لوں گا یہ کام ڈیوٹی سے واپس آکر۔ تجھے کون کہتا ہے کہ تُو کر“ ظہور نے کہا تو وہ خاموش ہو گئی ۔ چار بچوں کا باپ ہو کر بھی بات بے بے کی ہی مانتا ہے‘ وہ کُڑھنے لگی۔ خدا پوچھے اس گامے کو بھئی انکار کر دیتا تو اس کا کیا جاتا اور بے بے کا تو مغز ہی گھوم گیا ہے‘ وہ بچوں کو مار پیٹ کر کام بھی کرتی رہی اور غصہ بھی اتارتی رہی۔ لیکن جب گامے کی باڑ میں وہ سب لوگ اپنی بھینس دیکھنے گئے تو ر شیداں یہ سن کر ہی اس پر عاشق ہو گئی کہ وہ کلورکوٹ سے لائی گئی ہے۔ اس کی کالی چمکتی کھال، پیشانی پر ایک سفید دھبہ ، موٹے موٹے سینگ، چمک دار آنکھیں وہ بہت معصوم جانور لگی اسے۔ ” اس کا نام ”کلوری“ رکھوں گی میں“ اس نے اعلان کر دیا۔
”چھوٹی عمر کی مج (بھینس) ہے بھرجائی ابھی تو بڑا عرصہ دودھ دے گی اور پھر ایک تھوڑی ہی رہے گی۔ اس کی نسل بڑھے گی تو کٹیاں(بچھڑیاں) ہی دے گی ڈبل فائدہ ہو گا۔ رکھنا ہوا تو کٹیاں رکھ لینا نہیں تو بیچ دینا۔ یہ تو حلالی رزق ہے بھرجائی“ گاماں اور اس کی گھر والی نے خالص دودھ پلا کر ان کی خوب مہمان نوازی کی اور بچے بھی ”کلوری“ سے خوش ہو گئے۔ رشیداں اور ظہورنے وقت کی تقسیم کر لی تھی۔ کچھ وقت کلوری کے لئے روزانہ دونوں نکال لیتے تھے لیکن رفتہ رفتہ محنت طلب کام رشیداں کے ہی حصے میں آیاتھا۔

کلوری اسے کچھ ہی دنوں میں بہت عزیز ہو گئی تھی۔ جب رشیداں اس کی صفائی ستھرائی کرنے اور کھانا کھلانے جاتی تو وہ سر اٹھا کر ”آں۔ ۔ آں ۔۔۔کی آوازیں نکال کر اس کا استقبال کرتی اور اسے یوں تکتی جیسے وہ انتظار کر رہی تھی۔ کبھی رشیداں بیمار ہوتی تو لگتا کہ وہ اپنی خاموش زبان سے اس کا حال پوچھ رہی ہے اور کبھی جب وہ اس کی پشت پر پیار سے ہاتھ پھیر کر پوچھتی ” کیوں کلُوری گھر لے جا ¾وں تجھے“ تو اسے لگتا وہ صاف انکار کر رہی ہے یہ کہہ کر کہ وہ یہاں اپنے ساتھیوں میں خوش ہے۔ اس نے یہ بات ظہور سے کہی تو وہ ہنس پڑا۔
”تیرے دماغ کی کمزوری ہے نیک بختے بادام کا تیل مالش کروایا کر سر میں“۔ اس نے یہی جواب دینا تھا۔
”ہاں مگر بے زبان بھی تو ایک دوسرے سے دکھ درد کہتے ہیں ناں۔ مجھے لگتا ہے کلُوری مجھ سے باتیں کرتی ہے“ اس نے کہا تو ظہور ہنس دیا۔
” کہاں اس کے لانے کے خیال سے ہی تجھے دورے پڑنے لگے تھے اور کہاں اب وہ تیرے میکے کلورکوٹ سے تیری سہیلی نکل آئی ہے۔ لو جی مجھ سے باتیں کرتی ہے۔۔۔ جھلی ہے تُو“ ظہور ہنس دیا اور وہ چُپ ہو گئی۔

”ہائے میں نے سنا ہے اللہ رکھے تم نے مج پال لی ہے شیداں“ وہ دروازے سے باہر چھان بورے والے کی آواز سن کر نکلی ہی تھی کہ پڑوسن نے آ لیا۔
”ہاں باجی آپ کو تو معلوم ہے ناں مہنگائی کا دور ہے اور ایمانداری سے سفید پوش آدمی روز گھر کا خرچہ کیسے چلائے۔ کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے“۔ اس نے کہا ”اے بھائی چھان بورے والے بس ایک کلو باسی روٹیاں کافی ہیں اور کیوں ڈال رہا ہے ترکڑی (ترازو) میں“ اس نے چھان بورے والے سے کہا تو سامنے والی راجیانی بھی دروازے پر آ گئی۔
”ہائے ہائے باسی روٹیاں کس لئے لے رہی ہو شیداں؟ کیا ظہور کو مارنا ہے یا ساس کو“؟ راجیانی کبھی بھی طننز کے علاوہ بات نہیں کر سکتی تھی۔
”راجیانی صاحبہ آپ کو نئیں پتا شیداں نے مج (بھینس) لے لی ہے ناں۔۔ بھئی فائدہ ہی فائدہ۔ گھر کا خالص دودھ بھی اور آمدنی بھی“ برابر والی نے یہ خبر شیداں کی طرف سے ان کو سنائی تو وہ بولیں۔
”کمی کمینوں والا کام ہے۔ ہمارے گراں (گاﺅں) میں کمی کمیاری یہ گائے بھینسیں سنبھالنے کا کام کرتے ہیں“۔ ویسے شیداں ہے تو بڑی میسی بتا دیتی تو ہم بھی خالص دودھ تجھ سے خرید لیتے۔ گاماں تو نالے کا پانی گاگر بھر کر ڈالتا ہے ملائی بھی نہیں جمتی دودھ پر“۔ انہوں نے حسرت سے آہ بھری۔
”میرا تو اس میں کوئی دخل نہیں۔ بچوں کے ابا نے ہی یہ سوچا ہے بچوں کے لئے“ اس نے بات ختم کرنی چاہی۔
”سنو رکھی کہاں ہے تم نے اپنی بھینس؟ گامے سے ہشیار رہنا وہ بیچ دے گا اور کہے گا کِلے سے کھل کر چلی گئی رات کو۔ ہی ہی ہی۔۔۔ گاماں آخر کو ہے ناں گوالہ۔“۔ راجیانی نے ایسی بات کی کہ شیداں کا دل دھک سے رہ گیا۔
جھوٹے لارے۔۔۔ مچھیاں کٹارے
مچھی گئی پانی۔۔۔  اگوں ملی نانی
نانی پکائیاں روٹیاں ۔۔۔ کھا ککڑے دیاں بوٹیاں
سامنے حمیدہ کھیل رہی تھی۔ لڑکیوں کی ہنسی کی آوازیں اور کھیل کود کے یہ گیت سننے میں اچھے لگتے تھے۔ شیداں کو ان کے کھیل پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ بچے تو سنبھالے رکھتی تھی حمیدہ اور یوں وہ گھر کا کام ختم کر کے کلوری کو بھی دیکھنے چلی جاتی۔ اپنے بچوں سے اتنے لاڈ نہیں کرتی تھی رشیداں جتنا وہ کلوری کا خیال کرتی تھی۔ بلکہ ماں کو ”کلوری“ کے اتنے نخرے اٹھاتے دیکھ کر حمیدہ کے دل میں خیال آتا کہ کاش وہ ”کلوری“ ہوتی۔
”حمیدہ چل گھر واپس آجا تیرے ابا آتے ہی ہوں گے“۔ حمیدہ کو آواز دے کر وہ اندر چلی گئی۔
”حمیدہ کے ابا! رات سونے سے پہلے اسے یاد آیا کہ یہ بات جو اس کے کلیجے سے چمٹ گئی تھی راجیانی والی وہ ظہورے سے کر لینی چاہیئے۔
”اب کیا ہے نیک بخت؟ ذرا سا گہری نیند میں جانے لگتا ہوں تو پٹ مارتی ہے“ ظہور جھنجھلایا ہوا تھا۔
” راجیانی کہہ رہتی تھی کہ۔۔۔۔ اس نے پوری بات میاں کو سنا دی۔
”اوئے ایسے نہیں ہوتا۔ گاماں اور سارے دَودھی اگر ایسا کرنے لگ جائیں تو ان کا کاروبار نہیں چل سکتا۔ ساکھ ہے ان کی مدتوں کی تب ہی تو لوگ ان سے ایسا بزنس کر لیتے ہیں اور ہماری ایک بھینس کو بھگا کر یا بیچ کر اسے کتنا فائدہ ہو جائے گا؟ چپ کر کے سو جا“۔ اس نے کروٹ بدل لی۔
”باسی روٹیاں اور چوکر اپنی کلوری کے لئے بھگو دیا تھا“ نیند میں ڈوبے ہوئے ظہور کو کلوری کا خیال آیا۔
”نہیں گامے کی بیوی کے ساتھ ہی بھگوتی ہوں صبح“ شیداں بھی بدن کے درد اور نیند سے بے حال تھی ۔

”ہیں یہ کیا کہہ رہی ہیں اکبری تائی؟ وہ خوشی سے جھوم گئی آپ کو کس نے بتایا۔ دَودھیوں کے محلے سے اکبری تائی یہ خبر لائی تھی۔
”مجھے کون بتائے۔ سارا وقت میرا بھینسوں میں گزرتا ہے۔ میں تو دیکھ کر پہچان لیتی ہوں کہ کون سی بھینس اب کَٹی وچھی دینے والی ہے“۔ اکبری تائی نے ہی بتایا تھا کہ کُلوری کے ہاں خوش خبری ہے۔ اور رشیداں ساس کو بتانے چل دی۔
”اللہ کے کام ہیں نی دھیے شکر ہے اللہ پاک کا۔ درخت کو پھل تو وہی لگاتا ہے ناں سوہنڑا رب“۔بے بے شکر کی تسبیح پڑھنے لگ گئیں۔
”بے بے آپ دعا کریں کہ کَٹی ہی پیدا ہو میری کُلوری کی“ وہ نہال ہوئے جا رہی تھی۔ ظہور کو پتہ چلا تو وہ بھی مسکرانے لگ گیا۔
””رشیداں فکر نہ کر۔ بے بے بچے سنبھالے رکھتی ہے اور پھر ہماری حمیدہ بھی سیانی ہو رہی ہے۔ ایسا کر حمیدہ کو اب گھر کے کاموں پر لگا۔ یہی وقت ہے اس کے سیکھنے کا۔ تُو زیادہ وقت کُلوری کے ساتھ رہنا“ ظہور کے خیالات سے وہ متفق ہو گئی۔
”بھرجائی مبارک تھیوے تہاں کوُں ۔ اللہ کرے کٹّی چاہ آوے“ (بھابی مبارک ہو آپ کو اللہ کرے اس کی بچھیا ہی آئے)گامے کی بیوی نے کلوری کے لئے نیک جذبات کا اظہار کیا اور پھر رشیداں کو سمجھانے بیٹھ گئی کہ بھینس کا اب خیال کیسے رکھنا ہے۔
 بے بے کی دعا اپنے وقت پر قبول ہو گئی۔ کلُوری کی کٹّی (بچھیا) ہوئی تھی۔ ظہور اور شیداں خوش تھے۔ بچھیا کا نام ”نِکی“ یعنی چھوٹی رکھ دیا تھا انہوں نے اور وہ جب ماں کے پیچھے پیچھے چلتی تو یہ نظارہ رشیداں کو بہت اچھا لگتا۔
 حمیدہ کو بھی اب پانی بھرنے نلکے پر جانا اچھا لگتا تھا۔ سب لڑکیاں اس سے کُلوری کی بچھیا کی باتیں سنتی تھیں اور اس کی سہیلیاں بن گئی تھیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوا تھا کہ وہ سب پانی آنے پر پہلے حمیدہ کی بالٹیاں بھرواتیں پھر کسی اور کی اور ظاہر ہے حمیدہ کی خوشی کا تو عالم ہی کچھ اور تھا۔

ظہُور! او میرا سوہنڑا پُتر ظہور،! ٹی۔ وی کی آواز تو مٹھی (دھیمی) کر دے میرا بچہ“ بے بے کی آواز پر ظہور نے اٹھ کر ٹی۔وی کی آواز کم کی اور اٹھ کر اماں کے پاس چلا آیا۔
”بے بے موسمیات والے بتا رہے ہیں کہ اگلے ہفتے بارشیں شروع ہو جائیں گی پھر پانی کی کمی نہیں رہے گی“۔ وہ بے بے کے پا ¾وں دبانے لگا۔
”اوئے پُتر انہیں کیا پتا شوہدوں کو کہ بادل تو اللہ پاک کی مرضی سے آتا ہے۔ دعا کر شالا خیر ہووے “۔ بے بے متواتر فکر مند تھیں۔
”ہاں اماں بس یہ ہو ناں کہ ڈیم بھر جائیں اور نلکوں میں پانی آنے لگ جائے“ ظہور کو پانی کی قلت کا شدت سے احساس تھا۔
”بیٹا حکومت چاہے شیروالوں کی ہو کہ پپلیوں کی انہاں توں چنگا کم کوئی نئیں ہونڑا۔ ناں بجلی نہ پانڑی۔ سارا دن میری پوتی پانی کے پیچھے دھوپ میں جلتی رہتی ہے“۔ اماں نے دکھ سے کہا۔
”ہاں بے بے!حمیدہ بے چاری پر یہ بوجھ بہت ہے۔ اسکول جانے سے پہلے بھی پانی بھر کر لائے اور اسکول سے آ کر بھی پانی کے پھیرے کرے۔ مجھے بڑا ترس آتا ہے اپنی بیٹی پر“ ظہور کے لہجے میں دکھ کے ساتھ بے بسی تھی۔
”بیٹا گھر میں ایک کھُوہ (کنواں) کیوں نئیں کھدوا لیتا۔ اپنے پانی میں برکت ہوتی ہے“ بے بے بھی کسی کیسی ترکیبیں سوچتی تھیں۔ جواب میں ظہور یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس چھوٹے سے گھر میں جہاں صحن نام کی کوئی چیز ہی نہیں وہ کنواں کہاں کھدوائے اور یہ بورنگ تو پیسے والوں کا کام تھا۔۔ وہ اماں پر کھیس اچھی طرح اوڑھا کر کمرے میں واپس آ گیا۔
”بچے سو گئے؟ اس نے پلنگ پر نیم دراز بیوی سے پوچھا۔
”ہاں“ جواب ذرا بیزاری سے دیا گیا۔
”رشیدا کیا بات ہے؟ بہت تھک گئی ہے آج“ اس نے محبت سے ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔
”آج۔۔۔ تھکنا تو روز کا ہی دکھڑا ہے۔۔ گھر کا کام، بچوں کی دیکھ بھال اور کلوری اور کٹی، کام عذاب ہی بنتا جا رہا ہے“۔ شیداں نے دل کی بھڑاس نکال دی۔
”میری جندڑی کل سے آدھے کام میں دیکھ لیا کروں گا تو فکر نہ کر ۔ ان سارے مہینوں میں دودھ سے جو کمائی ہوئی ہے ناں وہ خرچ نہیں کی میں نے۔ تُو جو کہے گی تجھے لے دوں گا“۔ وہ پیار سے بولا تو رشیداں کی تھکن ایکدم غائب ہو گئی۔ اس نے کروٹ بدل کر ظہور کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا۔

”اماں باہر نلکے میں پانی بڑا تیز آ رہا ہے اور رش بھی نہیں ہے۔ لا بالٹیاں دے میں بھر لاﺅں“۔ حمیدہ نے ماں سے کہا۔
”حمیدہ! پتر تُو جا ذرا کلُوری کے پیچھے کیونکہ ”نِکی“ بیمار ہے۔ ادھر ہی رہنا جب تک ڈاکٹر آ نہ جائے۔ خود سامنے دوائی پلوانا اچھا ۔ پانی میں خود ہی لے آتی ہوں“۔ شیداں نے بالٹی اٹھالی۔
شام ہو چکی تھی تیز بارش جو رات سے شروع ہوئی تھی رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ظہور کے گھر آنے کا وقت ہو چکا تھا اور حمیدہ ابھی تک نہیں لوٹی تھی کُلوری کے پاس سے‘ اسے فکر ہونے لگ گئی۔ لاکھ چھوٹی سہی، ہے تو دھی کی ذات اور جوان ہو رہی ہے ‘ ۔ اسے فکر نے آن گھیرا۔
”بے بے میں جاتی ہوں ذرا حمیدہ کو لے آﺅں اور کلوری کی نکی کو بھی دیکھ آﺅں“ یہ کہتے ہوئے صحن میں فٹ فُٹ کھڑے پانی کو شیداں حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔ ’یہ کہاں سے آ ئے جا رہا ہے اور پھر گلی کا دروازہ کھولتے ہی باہر کے منظر سے گھبرا کر چیخ پڑی۔۔۔ظہور۔۔۔ ۔۔حمیدہ۔۔۔بے بے۔۔۔ اس کی چیخیں سارے گھر میں گونج رہی تھیں۔ ظہور گھٹنے گھٹنے پانی میں مشکل سے چلتا ہوا پہنچا تھا۔
” چلو جلدی نکلو ، جلدی کرو۔۔بڑا دریا چڑھ گیا ہے۔۔مسجدوں سے بستی خالی کرنے کا اعلان ہو رہا ہے“۔
”ہائے میری حمیدہ۔۔ گلی میں آ کر جو شیداں نے مُڑ کر دیکھا تو گوالوں کے ڈیرے کی طرف دریا ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ ہر طرف شور ہی شور تھا۔ پانی کے شور کے ساتھ جانیں بچا کر نکلنے والوں کا شور۔۔ہر طرف ایک محشر بپا تھا۔
” ظہور! میری بچی۔۔ میری حمیدہ۔۔ پانی کمر کمر تک چڑھ آیا تھا۔ وہ روئے چلی جا رہی تھی۔ ”ظہور! کلوری کی نکی بیمار تھی میں نے حمیدہ کو ادھر بھیج دیا تھا۔ ہائے ۔میں نئیں جاتی حمیدہ کے بغیر“۔ رشیداں چلتے چلتے رُک گئی۔ بستی والے لڑکوں نے اور ظہور نے مشکل سے پکڑ کر اسے تھاما۔
” چلو نیک بخت میں اسے بھی لے آﺅں گا“۔ ظہور نے بے بے کو کندھے پر اٹھا رکھا تھا۔ دو بچوں کو سامنے والوں کے لڑکوں نے اپنے اپنے کندھے پر بٹھا لیا تھا۔سہمے ہوئے بچے کبھی پانی کو اور کبھی اپنے بڑوں کو دیکھ کر اونچی آوازوں میں رو رہے تھے۔۔ لڑکوں اور مردوں نے ایک رسی سب کو تھما دی تھی اور سب اسے پکڑ پکڑ کر آگے کی طرف بڑھ رہے تھے ۔پانی کی ایک لہر دوسری سے بھی زیادہ زور دار آتی تو ان کے پاﺅں اکھڑ اکھڑ جاتے لیکن۔۔”ہائے حمیدہ۔۔۔ ہائے حمیدہ“ کرتی روتی دھوتی شیداں آپنے آپ کو اور چھوٹے بچوں کو کھینچے چلی جا رہی تھی پکی سڑک کی طرف جو محفوظ مقام تھا۔
 کنارے کے قریب کھڑے مردوں نے پہلے بچوں کو پانی سے نکالا، بے بے کو پکڑ کر سہارا دے کر بٹھایا۔ ظہور نے بچے کسی کو تھما کر شیداں کی طرف ہاتھ بڑھا یا۔ ”نہیں نہیں میں نہیں آتی۔ حمیدہ کو لے کر آﺅں گی ورنہ یہیں مر جا ¾وں گی“۔ رشیداں چلائے جا رہی تھی۔
”شیداں۔۔۔شیداں۔ پاگل نہ بن۔ اس طرف کشتیاں لے کر جا رہے ہیں کچھ لوگ۔ چل آ جا“ پر اس نے ایک نہ سنی اور ہاتھ ڈھیلا پڑتے ہی پانی کا زور اسے دھکیل کر لے گیا۔۔۔ شی۔۔۔داں،۔۔ اس نے ظہور کی آواز دور ہوتی ہوئی سنی۔

” نِکی ٹھیک ہے اسے چارہ پٹھے ڈالو حمیدہ“ بھینسوں کا ڈاکٹر ابھی ابھی سب کو چیک کر کے گیا تھا۔حمیدہ کلوری کی نکی کے پاس بیٹھی اسے چارہ ڈال رہی تھی جب پانی باڑے میں داخل ہوا اور باڑے کی کچی دیوار کے گرنے کے ساتھ ہی بھینسیں” آں۔۔۔آں۔۔۔کے شور کے ساتھ باہر کی طرف تیرنے لگیں۔ گوالے اور ان کی گھر والیاں اپنے اپنے بچوں کو سنبھالنے لگ گئے۔ حمیدہ کی کسی کو یاد ہی نہیں آئی۔ پانی حمیدہ کے کندھوں سے گلے تک پہنچ گیا تھا اور اس سے پہلے کہ اس کا توازن بگڑتا اور وہ پانی کی منہ زور لہروں کے ہتھے چڑھتی۔۔ قریب ہی کُلوری نے زور سے ” آں۔۔آں۔۔ آں کی آواز نکال کر اسے سینگوں کا سہارادیا۔ ڈری ہوئی حمیدہ سینگ پکڑ کر کُلوری کی پیٹھ پر آ گئی اور دونوں بازﺅں سے اس کی گردن کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ ”ہائے اماں۔۔۔ ہائے ابا۔۔۔بے بے“ اس کا ننھا سا دل پانی کے پُر ہول منظر سے دھک دھک کر رہا تھا۔ ”کُلوری۔۔ مجھے بچا لے۔۔ کُلوری“ حمیدہ کو لگا کُلوری ہی اب اس کی اماں تھی جو اسے اس موت کے بے رحم جال سے بچا سکتی تھی۔ کُلوری نے مڑ کر اپنی نِکی کو تیرنے کی کوشش کرتے دیکھا پھر ”آں۔۔آں۔۔ کی آواز سے اسے پیچھے آنے کو کہا اور کسی سمجھ دار انسان کی طرح دائیں بائیں دیکھ کر ایک طرف تیرنے کا فیصلہ کر لیا یہ دیکھے بغیر کہ اس کی بچھیا کب سے پانی کی لہریں بہا کر لے بھی جا چکیں۔ حمیدہ کو لگا اس کی اماں ٹھیک کہتی تھی ”کُلوری باتیں کرتی ہے۔ اسے لگا کُلوری نے اس سے کہا ہے آنکھیں بند کر لو پانی کی طرف نہ دیکھو اور وہ پڑھو جو بے بے ہر مشکل میں پڑھتی تھی‘۔اسے یاد آ گیا اور وہ حضرت غازی کا ورد پڑھنے لگ گئی۔
  یا غازی سرکار علم دار! ترِکھے گھوڑے دے سوار ! اپڑِیں تے نپڑیں سردار!
جانے کتنی دیر ڈبکیاں کھانے کے بعد ایک درخت کی شاخوں میں آ کرر شیداںاٹک گئی۔ جیسے موت نے اسے زندگی کی طرف واپس دھکیل دیا ہو۔ وہ پیڑ کی اونچی اور مضبوط شاخ پر چڑھ کر بیٹھ گئی۔ اللہ جانے یہ کون سا علاقہ ہے۔ کس گلی کا پیڑ ہے۔کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔بس ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ بھیگے کپڑوں میں کپکپاتے اور سامنے کھڑی موت سے کچھ دیر کی رہائی کے اس عالم میں خوف کے مارے رشیداں نے دوسری طرف نظر گھمائی۔ پانی کے شور میں ایک کالی سیاہ چیز اور اس کے اوپر ایک گٹھڑی بہتی چلی آ رہی تھیں۔ ہائے رُڑھ گئی میری حمیدہ۔۔میری سوہنڑی بچی۔۔ ماں نے کیوں بھیجا تجھے میری بچی۔۔۔ماں صدقے۔۔ مالک مجھے اٹھا لے“۔۔ اس کے کپکپاتے بین ہوا سنتی رہی ۔۔ گٹھڑیاں اب قریب آ چکی تھیں۔ اس نے غور سے دیکھا۔ زندگی اس کی رگوں میںتیزی سے دوڑنے لگی۔ یہ تو کلُوری تھی جو جانے کب سے اور کہاں سے موجوں سے لڑ لڑ کر پشت پر حمیدہ کو لادے کبھی ادھر اور کبھی ادھر بھٹک رہی تھی۔ ” کُلوری۔۔۔کُلوری!۔۔۔ اس نے سینے کا زور لگا کر آواز دی تو کُلوری ، پانی جس کے نتھنوں تک چڑھا جا رہا تھا۔ اس نے جی جان کا زور لگا کر اپنا رخ اپنی مالکن کی آواز پر اس کی طرف پھرا دیا اور تھوڑی دیر میں نیم بے ہوش حمیدہ کو ماں نے کلوری کی پشت سے کھینچ کر سینے سے چمٹا لیا۔ میری بچی۔۔میری جند جان۔۔ماں صدقے۔۔ وہ اسے چومے چلی جا رہی تھی۔ ”اے مالک ۔۔اب مجھے میرے بچوں کی خاطر زندگی دے دے۔ پالنے والے۔۔ اب اس کی دھڑکنوں میں جینے کی آرزو تیز ہو گئی تھی۔ اچانک اس نے دیکھا کہ کُلوری اس کی ممتا کو ٹھنڈک پہنچا کر اپنی سلگتی ہوئی ممتا کا زخم لے کر اس سے دور ہوئی جا رہی تھی۔ ”کُلوری۔۔۔میری محسن کُلوری۔۔۔ او میری کُلوری“ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
ماں بیٹی درخت پر ہیلی کاپٹر میں موجود عملے کو دکھائی دے گئیں تھیں۔ ایک جوان نے اس کی طرف ایک بیلٹ بڑھائی ”بہن جی اسے اپنے اور بچی کے گرد لپیٹ لیں۔ مددگار اسے اوپر کھینچ رہے تھے اور وہ کلُوری ۔۔ہائے میری پیاری کلوری کہہ کہہ کرچلائے جا رہی تھی۔
”بہن جی اگر آپ کی کوئی اور بیٹی یا بہن کہیں رہ گئی ہے تو نشاندہی کر دیں ہم بچا لیں گے اسے بھی“ مددگاروںنے اسے تسلی دی۔
”وہ۔۔۔وہ۔۔ اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا جہاں محافظوں کو ایک کالا نشان نقطہ بنتا دکھائی دیا اور دوسری بار دیکھنے پر وہ نکتہ بھی پانی میں تحلیل ہو چکا تھا۔




دوسرا رنگ (افسانہ) عابدہ تقی


 ایک دودھیا سفیدی تھی جو حدِ نظر تک پھیلی ہوئی تھی۔
 وہ پتھروں کو کھودتے کھودتے ایک کونے میں آ کر بیٹھ گیا تھا اور اسی سفید موت کو سوچ رہا تھا جس نے اس کے باپ کو اور یہاں کام کرنے والے جانے کتنوں کو آ دبوچا تھا۔ تب سے اس کے منظر بھی یک رنگ ہو گئے تھے۔ یہاں تو آسمان بھی نیلا نہیں سفید ہی نظر آتا تھا، سورج اسے سفید مرغی کا انڈہ دکھائی دیتا تھا اور رات کسی ڈراﺅنی چڑیل کے سفید دانت ۔ جب وہ شہر جاتااور لاری کے شیشے سے باہر کے مناظر، قطار اندر قطار سبز درختوں اور رنگ برنگ پھولوں کی کیاریوںاور لہلہاتی فصلوں کو دیکھتا تو خوشی کی ایک لہر اس کے رگ و پے میں دوڑ جاتی لیکن دوسرے ہی لمحے سفیدی لپک کر آتی تھی اور ہر شے کو ڈھانپ لیتی یوں جیسے وہ برف پوش راستوں سے گزر رہا تھا۔
 اس عید پر وہ رجو اپنی گھر والی کے لئے لال رنگ کا سُوٹ لایا تھا۔ اس کا دل چاہتا تھا وہ اسے پھر کبھی ”ووہٹی“ بنی نظر آئے لیکن جب وہ عید کی نماز پڑھ کر آیا تو لال جوڑے میں شرماتی لجاتی رجو اسے ذرا دیر کو دلہن لگی تھی۔ اس نے دوبارہ پلکیں جھپکیں تو اس کے چہرے کی سفیدی کے عکس نے لال جوڑے کو سفید ماتمی لباس میں تبدیل کر دیا تھا۔ رجو اسے اجڑی ہوئی بیوہ کی طرح لگ رہی تھی یا پھر کوئی اداس روح۔ وہ بیوی کی تعریف میں دو جملے بھی نہیں کہہ سکا، نہ ہاتھ پکڑ کر اسے پاس بٹھا سکا۔ بس اندر جا کر آنکھوں پر بازو رکھ کر سو گیا۔ یہ تو کچھ بھی نہ تھا۔ بدن ادھیڑنے والی بات یہ تھی کہ اس کا بیٹا عالم اور بیٹی زرینہ اپنی ماسی کے گھر سے پنجرے میں بند ایک طوطا اٹھا لائے جو شروع میں اسے بھی بہت اچھا لگا۔ اس سفیدی بھرے ماحول میں اس کے سبز پروں کو دیکھنا اسے بھلا معلوم ہوتا تھا اور اس کی ٹائیں ٹائیں بھی اس کے گھر کی غمگین فضا کے بوجھل پن کو کم کرتی تھی لیکن ایک دن عجیب ہوا جب اس کی بیٹی زرینہ نے اسے آواز دی ”بابا میرے طوطے کو چوری کھلا دو میرے ساتھ“ اور وہ جیسے ہی پنجرے کے پا س گیا وہ طوطا سفید عفریت بن گیا۔ اُس کی ٹائیں ٹائیں اسے سفید موت کا پیغام لگ رہی تھی ۔اس نے پنجرے کا دروازہ کھول کر طوطا اڑا دیا تو زرینہ جو سب کچھ نہیں جانتی تھی جو اس کے باپ پر گزر رہی تھی لہذا وہ کتنے دن روتی رہی تھی۔
 اس کے باقی ساتھیوں کے ساتھ ایسا نہیں تھا۔ کیوں نہیں تھا؟ شاید اس پر کسی اوپر کی چیز کا اثر ہو گیا ہے‘ یہی سوچ کر اس کی بیوی ” سائیں زلفوں والی سرکار “ سے پانی بھی دم کروا کے لائی تھی اور ”مچ“ سے تھوڑی راکھ بھی لیکن کوئی فرق نہیں پڑا ۔ اس کے منظر بدستور سفیدی اوڑھے رہے۔ اپنی تسلی کے لئے وہ ڈاکٹر سے آنکھیں بھی چیک کروا کے آ گیا۔ ایک دن تو اس سفیدی کے آسیب نے اسے یوں گھیرا کہ وہ کھڑے کھڑے بے ہوش ہو گیا۔ بھائی اسے شہر لے آیا بڑے ڈاکٹر کے پاس۔
”کتنا عرصہ ہو گیا ہے آپ کو اس نمک کی کان میں کام کرتے کرتے“؟ ڈاکٹر صاحب اس سے پوچھ رہے تھے
”پندرہ سال جی“ یہ جواب بھی اس کے بھائی نے ہی دیا تھا وہ تو ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کا سفید گاﺅن اس نمک کا تو نہیں بنا جسے وہ کھود کھود کر نکالتا آیا تھا۔
”کوئی خاص بات نہیں۔ یہ کچھ دوائیں لکھ دی ہیں۔ انہیں ریسٹ چاہیئے اچھا ہو گا انہیں کچھ عرصے کے لئے کسی پر فضا مقام پر بھیج دیا جاے۔ ماحول اور فضا بدلے گی تو ٹھیک ہو جائیںگے“ ۔ ڈاکٹر صاحب نے مسکرا کر تسلی دی۔
انہوں نے نسخہ اس کی طرف بڑھایا تو وہ سفید کاغذ کو ہاتھ میں تھام کراسے جھاڑنے لگ گیا جیسے اس کاغذپر نمک گر گیا ہو اور دوائی کی گولیاں بھی سفید تھیں اس نے کھانے کے بجائے دور پھینک دیں۔ ”اونہہ نمک سے بنی ہوں گی یہ بھی“ اس نے پھر غصہ دکھایا تو رجو پانی کا گلاس واپس لے گئی۔ ©شیر سلطان کو اب خط لکھوانا پڑے گا وہ آئے گا تو خیرو کا مسئلہ حل ہو گا“ ۔رجو بے بے اور خیرو کے بڑے بھائی سے مشورہ کر نے لگ گئی۔
٭٭٭
 وہ سب پشتوں سے یہیں آباد تھے اور کان کنی کے پیشے سے وابستہ۔ اسی نمک کے ارد گرد گھومتی ہوئی ان کی برسوں پر محیط زندگی اور اسی کے گرد آباد برادری، ان کی شادیاں اور موتیں، خوشیاں اور غم، بچے اور بچیاں سب کچھ یہیں پروان چڑھا تھا۔ اس کا باپ اسے فخریہ سنایا کرتا تھا۔ ” ہمارے بازﺅں میں بڑا دم ہے پتر اوئے ! یہ کدالیں اور بازو ہی ہیں جنہوں نے چٹانیں توڑ توڑ کر یہ کان بنائی ہے “۔ بچپن میں وہ کئی بار باپ کے ساتھ سرنگ کے اند ربھی گیا تھا جہاں بارود پھوڑ کر اور تودے گرا کر راستے بنائے جاتے تھے۔ پھر اس کے باپ کی زندگی بھی ایک ایسے ہی دھماکے کی نذر ہو گئی تو کنٹریکٹر صاحب نے ان کے گھر کو معاوضہ ادا کر کے اس کے کام پر بھرتی ہونے کی پیشگی بھی ماں کے ہاتھ پہ دھر دی۔ ”مالکوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ افضل دین کی جگہ اس کے بیٹے خیر دین کو کام پر بھرتی کر لیں ۔” کل بھرتی ہے خیر دین کو بھیج دینا شہر سے مالک بھی آئے ہوں گے‘۔ کنٹریکٹر صاحب نے مزدوروں کے لیڈر عبدالصمد سے بات کی تھی جو اَب اس کی ماں کو یہ خوشخبری سنانے آیا تھا۔
”چنگا بچیا ہونی کو کون روک سکتا ہے۔ یہ تو شکر ہے میرے افضل کو اللہ نے پہلا پتر ہی دیا تھا۔ یہ پُتر اسی دن تو کام آتے ہیں۔“ اس کی دادی نے آنسو پونچھ کر اس کی طرف مسکرا کر دیکھا اور وہ اس کی پیٹھ تھپکتی رہیںاپنے آنسو گلے میں اتار کر۔
وہ پہلی بار نیلی وردی پہن کر کدال اٹھا کر آیا تو اسے اپنے بڑے ہونے کا احساس خوشی دے رہا تھا خاص طور پر یومیہ وصول کرتے ہوئے تو اسے ایسی خوشی ہوئی تھی کہ وہ اسے بیان نہیں کر سکتا تھا۔لیکن رفتہ رفتہ وہ خود بھی اس سفیدی کا حصہ بن گیا جو اسے اب اچھی نہیں لگتی تھی۔ جب وہ گھوڑی چڑھا تھا تو ہر رنگ اسے الگ شناخت کے ساتھ نظر آتا تھا۔ رجو کے گھر میں آنے کے بعد بھی زندگی کی رنگینیاں اسے لطف دیتی رہیں ۔پھر زرینہ اور عالم کا بچپنا بھی اسے رنگ و راحت کے نئے ذائقے سے آشنا کرنے لگے لیکن جوں جوں اس کا بیٹا عالم بڑا ہو رہا تھا تو اسے سفیدی کی پھپھوندی لگ گئی تھی۔ ’کیا وہ بھی بیٹے کو وراثت میں یہی دے کر جائے گا اس کے اگلوں کی طرح۔ یہ سفید زندان اور پھر سفید موت‘ نہیں نہیں وہ گھبرا اٹھتا میں انہیں دوسرے رنگ ورثے میں دوں گا۔ جیتے جی یہ سفید زندان نہیں‘ اس نے گھبرا کر زرینہ اور عالم کی طرف دیکھا جو دادی کے پاس لیٹے کہانی سن رہے تھے۔
”پھر کیا ہوا دادی؟ عالم کے سوال پر وہ مسکرا دیا۔ کبھی وہ خود بھی باپ سے ایسے ہی سوال پوچھتا تھا۔
”پھر اللہ تمھارا بھلا کرے پُتر۔ بادشاہ نے سب سے چھوٹی والی شہزادی کو بلا کر پوچھا شہزادی! میں تمھیںکتنا چنگا لگتا ہوں؟ دادی نے حقے کا کش لیا تو اس کی گڑگڑاہٹ کے وقفے نے بچوں کو پھر مشتعل کر دیا۔
”آگے بتائیں ناں دادی“ دونوں اُٹھ کر بیٹھ گئے۔
”لو جی اس نیک بخت نے کہا ۔ ابا جی! آپ مجھے اتنے چنگے لگتے ہیں۔ اتنے چنگے لگتے ہیں جتنا نمک“ دادی نے کہانی آگے بڑھائی تو خیر دین کروٹ بدل کر بول پڑا۔
”بے بے جی بس کریں یہ فضول کہانی اور تم بھی کاکا سو جاﺅ اب“۔ اونہہ اتنے اچھے لگتے ہیں جتنا نمک۔ دماغ خراب تھا شہزادی کا‘ وہ بڑبڑایا لیکن بے بے کو اونچا سنائی دیتا تھا تو وہ اسی طرح سے بولتی رہیں۔
”بس پھر کیا تھا اتنا سنتے ہی بادشاہ کو جلال آ گیا اس نے شہزادی کو گھر سے نکل جانے کا حکم دیا“۔ دادی نے دکھ سے کہا تو خیرو خوش ہو گیا ’بہت اچھا کیا بادشاہ نے میں بھی یہی کروں گا اگر کسی نے نمک کو اچھا کہا میرے سامنے تو میںاسے گھر سے نکال دونگا ‘۔ اس نے کروٹ بدل لی۔
”اللہ بڑا بے نیاز ہے پُتر اوئے۔ بادشاہ کے منہ سے نکلے ہوئے تکبر کے لفظوں سے اس کی پکڑ ہو گئی۔ کرنی خدا کی یہ ہوئی کہ اس بادشاہزادی کی شادی ایک دوسری سلطنت کے شہزادے سے ہو گئی اور اس نے ایک دن اپنے شوہر سے کہہ کر اپنے بادشاہ باپ کی دعوت رکھ لی اور باورچیوں کو حکم دیا کہ سارا کھانا بغیر نمک کے بنایا جائے“۔
”جلدی سنائیں ناں آگے کیا ہوا“ زرینہ کی آنکھیں نیند سے بند ہو رہی تھیں لیکن کہانی اب دلچسپ موڑ تک پہنچ چکی تھی۔
”بس پھر کیا تھا جب بادشاہ کے سامنے کھانے کا دسترخوان چنا گیا تو وہ جس کھانے کو چکھتا وہ بے سوادا ہوتا۔ بغیر لُون کے کیونکہ شہزادی نے لُون تو کھانوں میں ڈلوایا ہی نہیں تھا۔ بادشاہ جس کھانے کو کھاتا وہیں چھوڑ دیتا آخر اس سے نہ رہا گیا تو اس نے میزبان شہزادے سے پوچھا کہ ان کے ہاں کھانوں میں نمک کا رواج نہیں ہے کیا جو اسے یوں بے ذائقہ کھانے کھلائے گئے“۔
”پھر کیا ہوا دادی جلدی سنائیں ناں“ بچے بیتاب ہو رہے تھے۔
“ تو شہزادے نیک بخت نے کہا بادشاہ سلامت مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ کو نمک بہت ناپسند ہے“ جس پر بادشاہ نے کہا ” با غلط۔ بالکل غلط۔ نمک تو مجھے سب سے زیادہ پسند ہے بھلا نمک کے بغیر بھی کوئی مزہ ہے زندگی کا۔ بس پھر شہزادی بھی پردے سے اندر آ گئی اور نقاب اٹھا کر بولی” ابا جان مجھے پہچانئے میں ہی وہ شہزادی ہوں جسے آپ نے اس لئے گھر سے نکال دیا تھا کہ میں نے کہا تھا کہ آپ مجھے اتنے اچھے لگتے ہیں جتنا نمک“ تو بادشاہ شرمندہ ہوا ۔ اپنی بیٹی سے معافی مانگی بیٹی کو گلے لگایا اور کہا کہ میں مان گیا کہ نمک بہت اچھا ہوتا ہے۔ لو جی کہانی ختم پیسہ ہضم اب سو جاﺅ“۔
 اور خیرو نے کہانی ختم ہونے پر سکھ کا سانس لیا۔ پتہ نہیں کس نے یہ کہانیاں ایجاد کی ہیں۔ اگر بادشاہ کو نمک کھودتے کھودتے زندگی گزارنی پڑتی تو میں پوچھتا کتنا اچھا لگتا ہے اسے نمک‘ یہ بے بے کی کہانیاں بھی ناں اسی نمک سے بھری ہوتی ہیں۔’ کسی دن ان کی کہانی میں وہ گدھا پانی میں گر جا تا ہے جس پر نمک لدا ہوا تھا اور کسی روز سکندرِ اعظم کے گھوڑے نمک چاٹ کر مرنے سے بچ جاتے ہیں۔ جو اس علاقے میں آئے تھے۔ اگلے روز مغل بادشاہ بابر کو یہ جگہ پریوں کا مسکن دکھائی دی تھی۔ دادی اس زمانے کی کہانیاں بھی سناتی تھیں جب پہلے زمانے میں بونے نمک کی دیوار کو ہاتھ لگاتے ہی نمک کے بن جاتے تھے۔ یا پھر اس درویش کا قصہ لے بیٹھتی تھیں جس کی برکت سے اس نمک کی دیوار کو چاٹ کر جو دعا مانگی جاتی قبول ہوتی تھی‘ ۔ یا پھرچین کے اس بادشاہ کی کہانی جو نمک کے سکے بنایا کرتا تھا۔ اونہہ یہ قصے کہانیاں‘ وہ پیچ و تاب کھاتے کھاتے تھوڑی دیر میں سو گیا۔
٭٭٭
 اگلے روز ایک نئی ٹورسٹ پارٹی آن پہنچی تھی اور یہ تو اب روزمرہ کا ہی نظارہ تھا۔ ان کے ساتھ ٹی۔وی کیمرے اور اسٹوڈنٹس، ریسرچ آفیسرز، کچھ گورے، ہنستے کھکھلاتے بچے۔ سب نمک سے بنی سرنگوں میں سے گزر رہے تھے۔ نمک سے بنایا ہوا شیش محل، بادشاہی مسجد، مینارِ پاکستان، نمک سے گرتے ہوئے بوند بوند پانی کی جھیل سیف الملوک اور کئی ایسی حیران کُن چیزیں دیکھ کر سب خوش ہو رہے تھے۔ اب وہ سب چل کر ہسٹری ہال میں داخل ہو چکے تھے جہاں انجینئر صاحبان انہیں اس علاقے کی ترقی کے مناظر ویڈیو اور پراجیکٹر سے دکھا رہے تھے اور پوائینٹر کے ساتھ ساتھ ان کی آواز کمرے میں گونج رہی تھی۔
”۰۵۷ سن عیسوی میں سکندرِ اعظم اس علاقے میں فوج کے ساتھ پہنچا اورہسٹری بتاتی ہے کہ یہ اس جگہ کی پہلی دریافت تھی۔ لیکن تاریخی قرائن سے یہ بھی ثابت ہے کہ اس بھی قبل یہ علاقہ چینی بادشاہوں کے زیرِ تسلط تھا ۔ ٹورسٹ اپنے نوٹس لیتے جا رہے تھے ۔ مائیک کا رُخ بھی ہسٹری بتانے والے کی طرف تھا۔
”سن 1872میں ایک انگریز انجینیئرنے اس جگہ کو باقاعدہ دریافت کیا اور یہاں کان کنی کی انڈسٹری کی بنیاد رکھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس سرنگ سے راستہ نکال کر اسے مین روڈ کے ساتھ جوڑ دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی کان کنی کے ماڈرن طریقے بھی متعارف کرائے گئے اور پاکستان نمک انڈسٹری میں نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ بہت بڑا ایکسپورٹر بھی ہے اور اس خوردنی نمک کی مانگ دنیا میں بڑھتی جا رہی ہے“َ ہسٹری مین نے اپنا لیکچر ختم کیا تو خیر دین نے سوچا۔
’جانے کس بات پر خوش ہوتے ہیں۔ ہم مزدوروں کے لئے تو یہ سب مزدوری ہے یا پھر موت کی سوداگری۔ کتنے ہی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں بلاسٹنگ کے دوران اور کتنے ہی سالٹ شِیٹ کٹنگ کے دوران زخمی بھی ہو جاتے ہیں، اچانک تودا گر جانے سے دب کر مر جاتے ہیں۔ نمک میں سانس لے لے کر دمے کے دائمی مریض ہو جاتے ہیں لیکن ان ٹورسٹ کو کوئی یہ تاریخ تو نہیں دکھائے گا۔ انہیں کیا یہ تو یہ دیکھنے آئے ہیں کہ انجینیرز نے کیا کیا بنالیا ہے یہ تھوڑا ہی دیکھتا ہے کوئی کہ مزدوروں نے کیا کیا کھو دیا ہے‘ اسے پھر باپ کی کفن زدہ لاش نظر آنے لگ گئی۔ لیکن اسے انٹرویو میں یہ سب نہیں کہنا تھا۔ جو اسے کہنا تھا وہ اسے یاد کروا دیا گیا تھا او وہ کیمرے کے سامنے کہہ رہا تھا۔
”بہت ہی اچھا لگتا ہے یہاں کام کرنا میں ساتویں نسل ہوں یہاں کام کرنے والوں کی۔ یہ ہمارا جدی پشتی پیشہ ہے ہم نسلوں سے یہ کام کرتے آ رہے ہیں۔ یہاں صحت کی سہولت بہت اچھی ہے۔آب و ہوا بھی اچھی ہے۔ لوگ شہر سے اور دور دور سے آتے ہیں تو بڑی خوشی ہوتی ہے۔ اور ہمارا تو روزگار ہے ناں جی “ ۔ اس نے کہانی ختم کی تو رپورٹر نے اس کا شکریہ ادا کیا۔
”تو ناظرین دیکھا ٓپ نے قدرت کا یہ انتہائی طلسماتی عطیہ جسے انسانی ہاتھوں نے کس مہارت کے ساتھ بنایا ہے اور اسے ایک مِنی پاکستان میں تبدیل کر دیا ہے۔ کیمرہ مین نصیر کے ساتھ میں ہوں آپ کی رپورٹر ۔۔“ وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں سن سکتا تھا ۔ دفعتاََ اسے لگا جھوٹ بولتے بولتے اس کی زبان بھی سفید ہو گئی تھی ۔ پریشان ہو کر وہ پاس کھڑی گاڑی کے ویو مرر میں زبان دیکھنے لگا تھا۔

© ©”کیا بات تجھے اندر ہی اندر کھائے جا رہی ہے خیر دینا میں تیرے بچپن کا سنگی بیلی ہوں مجھے تو اصل بات بتا تا کہ اس کا کوئی حل نکلے“۔ شیر سلطان اس کے گھر کے صحن میں اس کے پاس بیٹھا تھا ۔بے بے، رجو اور ذرینہ جو صبح سے شیر سلطان کی خاطر مدارات میں مصروف تھیں ابھی ابھی اٹھ کر اندر گئی تھیں اور موقع غنیمت جان کر شیر سلطان نے بات چھیڑ دی۔
شیر سلطان خیر دین کے بچپن کا دوست تھا۔ اس کا باپ یہاں پر فورمین ہوا کرتا تھا جب خیرو اور وہ بچے تھے۔ وہ ایک ساتھ مل کر یہاں سیر کو آنے والوں کا نظارہ کرتے تھے۔ انگریز ٹورسٹ کے ساتھ مل کر ان کے کیمرے سے تصویریں اترواتے، انہیں سلوٹ مارتے اور ان کو دیکھ دیکھ کر ہنستے تھے لیکن یہ عرصہ بھی جلد گزر گیا تھا اور اس کا باپ کسی دوسرے شہر میں کسی اور فیکٹری میں ملازم ہو گیا تھا تو شیر سلطان بھی چلا گیا۔ شیر سلطان اچھی جگہ لگا ہوا تھا۔ اس کی رہائش ایک بڑے شہر میں تھی جہاں وہ نسبتاََ خوشحال زندگی گزار رہا تھا۔ شیر سلطان نے اپنا رابطہ خیر دین سے بحال رکھا تھاخط و کتابت کے ذریعے سے اور کبھی کبھار اس طرف نکل آتا تو اس سے اور اس کے خاندان سے مل بھی جایا کرتا تھا۔خیر دین کی عجیب و غریب بیماری کی خبر اسے پہنچی تھی اور وہ پہلی فرصت میں اس سے ملنے چلا آیا تھا۔
”میں اپنے عالم کے لئے پریشان ہوں شیر سلطان۔ میں نے ساری حیاتی اس سفید زندان میں گزار دی۔ اپنے باپ کی لی ہوئی پیشگیاں ادا کرتے کرتے اور اب کسی دن میں بھی کسی تودے تلے آ کر مر گیا تو میرے عالم کو بھی یہ سفیدی نگل لے گی“۔ خیر دین نے دل پہ رکھی اپنے دکھوں کی گٹھڑی اپنے دوست کے سامنے کھول کے رکھ دی۔
”یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے کہ جس کا حل نہ ہو۔ عالم کو اسکول بھیج پڑھ لکھ جائے تو کسی اور جگہ نوکری لگ جائے گا بڑا ہو کر“ شیر سلطان نے لمحوں میں ایک عمر کے مسئلے کا حل بتا دیا تھا اپنے بچوں کی مثالیں دے کر ” بڑا لڑکا خیر سے ہائی اسکول میں میٹرک کا امتحان دے گا اگلے سال اور اس سے چھوٹے دونوں بھی پڑھائی میں ہشیار ہیں تو انہیں میں اچھی تعلیم دلوا رہا ہوں آگے جو اللہ کی مرضی“۔ شیر سلطان کے چہرے پر اپنے بیٹوں کی بات کرتے ہوئے خوشی کے انوکھے رنگ دکھائی دے رہے تھے۔
”میں پڑھائی کا خرچ نہیں اٹھا سکتا ویسے بھی یہاں قریب لڑکوں کا مڈل درجے تک کا اسکول ہے۔ شہر بھیجنے اور آگے پڑھانے کا تو سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہاں تو سب کے لڑکے زیادہ سے زیادہ پانچویں تک پڑھ کر اسی جگہ بھرتی ہو جاتے ہیں“۔ خیر دین پھر گہری سوچ میں ڈوب کر تھوڑی دیر چپ ہو گیا اور پھر بولا ” میں چاہتا تھا اپنے بیٹے کو ورثے میں کوئی اور رنگ دے کر جاﺅں یہ موت بھری سفیدی نہیں“۔ اس نے بات ختم کر کے پھر خلا میں گھورنا شروع کر دیا۔
”اگر تیرے ٹھیک ہو جانے میں صرف اتنی سی بات حائل ہے تو چل یہ مسئلہ تو حل سمجھ۔ میں عالم کا چاچا ہوں جیسے تیرا بیٹا ویسا ہی میرا بھی۔ میں اسے ساتھ شہر لے جاﺅنگا اور وہیں اس کو دسویں جماعت تک پڑھاﺅں گا اور کہیں اچھی نوکری بھی لگوا دوں گا۔ کیا خیال ہے؟ شیر سلطان کی بات ختم کرتے ہی خیر دین اس سے لپٹ کر رونے لگ گیا۔
”میں تیرا یہ احسان زندگی پھر نہیں بھولوں گا شیر سلطان اور اس کی تعلیم کی ایک ایک پائی ادا کر دونگا“
”او چُپ کر اوئے بکواس نہ کر۔ بڑا آیا ادائیگی والا۔ دوست کہتا ہے اور بیوپاریوں جیسی باتیں کرتا ہے۔ بس پھر اب پکی بات ہے کہ عالم کو میں ساتھ لیتا جاﺅنگا تو گھر والوں سے بات کر لے“۔ شیر سلطان نے اس کے قدموں تک جھکے ہوئے خیر دین کو اٹھا کر گلے سے لگا کر تھپکی دی تو خیر دین کی آنکھوں کے مناظر نے کئی رنگ اوڑھ لئے ۔ سفیدی کہیں دور غائب ہو گئی۔
٭٭٭
رجو نے چپ سادھ لی تھی یہاں فیصلے کا اختیار تو مردوں کو ہی ہوتا ہے اور خیر دین تھا بھی غصے کا ڈاڈھا بندہ۔ بیٹے کی جدائی نے اسے خاموش کر دیا تھا لیکن خیر دین بہت خوش تھا۔

” جو مستقبل تو بتا رہا ہے ناں خیر دینا! اس میں تیرے بیٹے کو شایدکچھ مل جائے پر تیرے پلے کچھ نہیں آئے گا“ دادی الگ واویلا مچانے میں لگی تھیں جن سے بستی کی عورتیں افسوس کرنے آئی تھیں کہ عالم خیر دین شیر سلطان کے شہرمیں پڑھنے جا رہا ہے۔
”یہاں کیا برائی تھی باپ دادا کا پیشہ ہے۔ عزت کی روٹی ملتی ہے۔ اللہ نے تجھے بھاگ لگائے ہیں اب تو کام بھی آسان ہے۔ تیرے باپ دادا کے زمانے میں تو زیادہ مشکل تھا۔ ایک آنہ ملتا تھا اب تو اتنے روپے ملتے ہیں“ بڑے چاچا بھی ناراض ہو رہے تھے۔ بڑے چاچا نے اپنے چاروں لڑکوں کو یہیں مزدوری پر لگوا دیا تھا۔ ایک تو سرنگ کے اندر لیجانے والے ٹرک ٹرالر چلاتا تھا ، دوسرا بڑے نمک کے تودے برابر سائز میں کرنے پر تھا اور باقی دو چھوٹے تھے تو انہیں بھی یہیں کھدائی کے بعد لادنے کے کام پر چاچے نے لگوا رکھا تھا۔
”چل تُو چار جماعتیں زیادہ پڑھوا لے گا تو عالم کو نواب تو نہیں بن جانا اوئے سب مزدور ہیں تو محنت ہی اپنا پیشہ ہے“ یہ بھی بستی کا کوئی بزرگ سمجھا رہا تھا لیکن وہ نہیں مانا اور یوں عالم شیر سلطان کے شہر آ کر گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخل ہو گیا۔
عالم کے شہرچلے جانے کے بعد وقت کو بھی جیسے پر ہی لگ گئے تھے۔ زندگی جیسے ا س کے بیٹے کے خطوں کے اور اسکے چھٹی آنے کے بیچ ہی ملن اور جدائی کی کہانیاں سناتے گزر گئی تھی۔ اب خیرو کو بھی عمرکے اس حصے نے آن لیا تھا جب جوان بیٹے کی لاٹھی ہی زندگی کو آگے کھینچ سکتی ہے اور اس کا خط ہاتھ میں تھا۔”آپ کی دعاﺅں سے میری اب انڈسٹری میں مکینک سے سینئر مکینک کے عہدے پر ترقی ہو گئی ہے اور مجھے یہاں کالونی میں کوارٹر بھی رہنے کے لئے مل گیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اب آپ ، اماں اور زرینہ یہاں آکر میرے ساتھ رہیں۔ زرینہ کی شادی بھی میں خود کرواﺅں گا اور آپ کی خدمت بھی۔“ خیرو کو خط پڑھ کر سنانے والاہمیشہ اشرف پوسٹ مین ہی ہوتا تھا۔
”مبارک ہو خیر دینا تیرے بیٹے کی ترقی بھی ہو گئی اور اب وہ تیرے بڑھاپے کا سہارا بھی ہو گیا۔ تیری محنت رنگ لے آئی” اشرف پوسٹ مین نے کہا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ خوشی کے آنسو۔کتنا وقت بیت گیا تھا کل تک عالم یہاں دادی سے کہانیاں سنتا تھا، زرینہ کو تنگ کرتا تھا، علاقے کے اسکول ماسٹر سے شرارتیں کرتا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اتنا بڑا ہو گیا تھا۔
” رَجو! نیک بخت وہ اگلے ہفتے ہمیں بُلا رہا ہے۔ اسے وہاں کوارٹر مل گیا ہے۔ کہہ رہا ہے کہ۔۔“ جوشِ جذبات سے خیرو کی بات ہی ادھوری رہ گئی۔
” میں سب سُن رہی تھی۔ اللہ لمبی حیاتی کرے میرے بچے کی۔ بے بے ہوتی تو کتنی خوش ہوتی۔ اس دن کا اسے کتنا انتظار تھا“۔ رَجو نے دیکھا کہ زرینہ بھی مسکرا رہی تھی۔
’مجھے سب سے زیادہ انتظار تھا نیک بختے میں اس سفید آسیب سے نکلنا چاہتا تھا اور بیٹے کو بھی اس کے چنگل سے آخر نکال ہی لیا میں نے۔ اللہ شیر سلطان کا بھلا کرے۔‘ وہ سوچ سوچ کر مسکراتا رہا۔
”شیر سلطان کو تو اللہ نے بھاگ لگا ہی دئے ۔ اسی لئے تواب اس عمر میں وہ اپنے لڑکے کے پاس امریکا جیسے بڑے شہر میں ہے۔میرے تو ہر سانس نے اٹھتے بیٹھتے اسے دعائیں دی ہیں۔ اللہ اس کے بچوں کو شاد آباد رکھے” رجو نے دعائیں دینی شروع کر دیں تو وہ مسکرا دیا۔
 زندگی نے ایک بار پھر کتنے حسین رنگ اوڑھ لئے تھے دور آسمانوں پہ بنتی ہوئی قوس ِ قزح کے رنگ۔

”دیکھارَجو میں کہتا تھا ناں میں اپنے بیٹے کو وہ سفیدی ورثے میں نہیں دونگا“ وہ سب لوگ اب کالونی میں داخل ہو چکے تھے اور خیر دین اُتر کر کوارٹر کا جائزہ لینے لگ گیا۔زرینہ اور رَجو دونوںادھر ادھر دیکھ رہی تھیں کہ انہیں وہ آتا نظر آیا۔ وہ اپنے گھر والوں کو دیکھ کر دیوانہ وار بھاگتا ہی چلا آیا۔ نیلے رنگ کی وردی میں سر پر چمکتی ٹارچ والی ٹوپی پہن کر جب عالم اپنے بابا، ماں اور زرینہ سے ملا تو نیلی ڈانگری پر سیاہ کوئلوں کا پاﺅڈر اور اس کے بدن پر سیاہ نشانوں کو دیکھ کر رجو نے کلیجہ تھام لیا۔
”یہ کونسی فیکٹری ہے پُتر جس میں تو کام کرتا ہے کہ تیرا منہ سر سب کالا شاہ ہو رہا ہے“ خیر دین نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔
” کول مائینز ہیں ابا جی ۔ کوئلے کی کانیں ہیں ۔ میں آپ کو کل اندر سے بھی دکھانے لے جاﺅں گا“۔ عالم اب ماں سے گلے مل رہا تھا ۔
”یہ تُو نے کیا کیا زرینہ کے ابا “ رجو بیٹے کے گلے لگ کر روئے جا رہی تھی۔









رنر اَپ عابدہ تقی


”سارا سارا دن دھوپ میں اس پرانی سائیکل کو چمکاتے بھی رہو تو بھی دو نمبر ہی آﺅ گے بیٹا۔ ابا کو شاید اس میں جیت کا جذبہ زیادہ کرنا مقصود ہوتا تھا یا اسے غیر نصابی سرگرمیوں سے باز رکھنا۔فہد کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔
”دو نمبر نہیں ابا۔۔رنر اپ کہتے ہیں سیکنڈ آنے والے کو“ فہد امیرنے مسکرا کر بات بدل دی۔
”ہمیشہ دانش درانی ہی نمبر ون کیوں آتا ہے ۔کبھی اس بات کو سوچا ہے تم نے؟“ ابا نے اسے پھر چڑانا چاہا۔
” ابا وہ مجھ سے زیادہ مقابلوں میں شریک ہوا ہے اور اس کی تیاری اچھی ہوتی ہے۔۔اسی لئے“ فہد امیر نے کبھی اس سے زیادہ کھوجنے کی کوشش نہیں کی تھی اپنے رنر اپ ہونے کی وجہ یا پھردانش درانی کی ہمیشہ اس پر سبقت لے جانے کی۔۔۔”ابا ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے کھیل میں اور بائیسکل رائیڈنگ بھی تو کھیل ہی ہے ناں“ اس نے سیدھا سا جواب دے دیا۔ ہمارے ہاں ہر کھیل کے شروع میں کہا جاتا ہے May the best man win۔۔مطلب جو سب سے بہتر ہو اسے جیتنا چاہیئے اور اب تک شائید وہ سب رائیڈرز میں بہتر رہا ہے“۔
”دانش درانی کا باپ امیر ہے اور اداروں کو اور اسپورٹس آرگنائزرز کو اندر ہی اندر مراعات دیتا ہے بہت سی۔۔سنا ہے اس بار جو کمپنی بائیسکلز اسپانسر کر رہی ہے وہ بھی اسی کے بھائی کی ہے تو۔۔۔۔“ ابا نے بات ادھوری ہی چھوڑ دی۔ ان کا مطلب فہد امیر کی سمجھ میں آ گیا تھا لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ باقی لوگ مقابلے میںآنا ہی چھوڑ دیں کیونکہ دانش درانی کا باپ امیر اور اثر و رسوخ کا مالک ہے۔ فہد کا یہی خیال تھا کہ یہ بات وہ غلط ثابت کر کے دکھائے گا کہ جیتنے کے لئے کسی اس طرح کے Pre-work کی ضرورت ہوتی ہے۔
© ©” ابا آپ کو معلوم ہے ہمیں اس ریس میں گیری فشر کمپنی کی ”ایکسیلشئیر پلس ماﺅنٹین بائیکس“ مل رہی ہیں“۔ فہد کے چہرے پر خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔
”ارے سائیکلیں ہمارے زمانے میں ہوتی تھیں۔۔۔یار میں جب ڈاکیہ بھرتی ہوا تھا تو پاکستان میں ”ہرکولیس“ کی سائیکل بہت مہنگی اور مشہور تھی۔۔ باہر کے کسی ملک کی کمپنی بناتی تھی۔بڑی تگڑی سواری تھی۔ تمھیں پتا ہے محکمہءڈاک سالانہ کارکردگی کے اعزاز میں کچھ سائیکلیں انعام میں دیتا تھا اور تمھارا باپ وہ ایک سائیکل جیتا ہوا ہے“ ابا اسے ہمیشہ اپنی پہلی وردی، پہلی سائیکل اور پہلے خط کی تقسیم کا جب تک نہ سنا لیں ان کا دل نہیں بھرتا تھا اور وہ بھی مزے سے سنتا تھا۔
”اچھا آپ کو بھی ہرکولیس سائیکل ملی انعام میں“ فہد نے پیڈلز کو چمکاتے ہوئے سوال داغ دیا۔
”نہیں یار۔۔ہمیں تو ”سہراب“ کی سائیکل ملی تھیںلیکن خیر وہ بھی ہرکولیس سے کم نہیں تھی کسی طرح بھی۔“ ابا پرانی یادوں میں کھو نے لگے۔

وقت کی اس کروٹ پر امیر خاں صاحب کو افسوس تھا کہ جس نے بائیسکل جیسی با عزت سواری کو اس قدر و منزلت سے گرا دیا تھا جس کی وہ اہل تھی۔ یہ بائیسکل کی محبت ہی تھی کہ انہوں نے محکمہ ¾ ڈاک کی ملازمت اختیار کی تھی ۔ کتنے چہروں پر خوشیوں کے چاند چمکتے تھے جب وہ انہیں ان کے دور دیس رہنے والوں کے خط یا تار پہنچانے جاتے تھے۔۔کتنے سونے چہروں پر مسکراہٹوں کی رونقیںکھیلنے لگتی تھیں جب وہ کسی تنگدستی میں گھرے لوگوں تک منی آرڈر کی رقم پہنچاتے تھے۔ ان ساری خوشیوں کے اسباب اس سائیکل کا پہیہ گھومنے ہی سے ہواکرتے تھے۔ لیکن انہیں اس بات کا افسوس تھاکہ اس دور میں نہ سائیکل کی عزت ہے نہ ہی سائیکل سوار کی۔ اپنے بیٹے کو کتنا عرصہ اسی بائیسکل پر بٹھا کر وہ اسکول چھوڑ کر آتے تھے ۔ ان کے خیال سے ان کے بیٹے فہد نے سائیکل کی عزت نہیں کی بلکہ کالج کی بائیسکل ریس میں جیتنے کے لئے اس سے وابستہ ہو گیا تھا اور آج بھی اگر اس کا شوق تھا تو بائیسکل رائیڈرز کا چیمپین بننے کی خاطر۔

”کھانا کھا لو آ کر باپ بیٹا دونوں تا کہ کام ختم کر کے میں بھی کمر سیدھی کروں “ اماں نے برآمدے سے آواز دی تو ابا بھنا گئے۔
”ارے آ رہے ہیں۔اتنی اونچی آواز تو پھیری والے کی بھی نہیں۔۔اللہ کی بندی آئیستہ بولا کرو۔ جب سے بیاہ کر آئی ہے ناں اس گھر میں تمھاری ماں،آواز اتنی ہی کراری ہے“۔۔ ابا اب ریٹائرمنٹ میں اماں سے نوک جھونک میں وقت گزارتے تھے۔
”اچھا اور میں جب سے بیاہ کر آئی ہوں دو سوکنوں کے قصے ہی سنتی رہی ایک تمھاری ”ہرکولیس“ اور ایک وہ کیا نام تھا اس فلم ایکٹریس کا جس پر تم“۔۔۔ اماں کے اور اونچا بولنے پر ابا دبک گئے۔۔
”کیا کرتی ہونیک بخت ۔۔چپ کرو یہ کوئی بات ہے کرنے کی۔۔آج کیا پکایا“ ابا کی دھیمی پڑتی آواز پر وہ مسکرا کر اٹھ کھڑا ہوا کیونکہ اگلی آواز اماں نے اسے ہی دینی تھی۔

”دیکھو دانش تکنیکی اعتبار سے تم اس اصول پر زیادہ عمل کرتے ہو کہ کہ جس میں اپنے ساتھی رائیڈر کی پیڈلنگ ورک بڑھا کر اسے ابتدائی مرحلے میں تھکا دیتے ہو اور ڈھلوانوں پر دوسرے بائیسکل رائیڈرز کی نسبت تم اپنی اسپیڈ کو ایک خاص مہارت سے کم یا زیادہ کر سکتے ہو لیکن اس بار جو ریس ہے اس میں چڑھائی یعنی Climbs زیادہ ہیں جن سے تمھارا واسطہ پڑنے والا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم کلائمب ورک زیادہ کرو“ دانش درانی اگرچہ اب تک روڈ بائیسکل رائیڈنگ ریس کا نا قابلِ شکست سائیکلسٹ مانا جاتا تھا لیکن اس کے کوچ ڈار صاحب کچھ غیر مطمئن تھے۔
”سر کیا آپ نے اب تک کلائمبس پر میرا اسٹیمنا کم ہوتے دیکھا ہے؟ دانش نے الٹا انہی پر سوال کر دیا۔
”نہیں یہ بات نہیں ہے ۔بات یہ ہے کہ اس سے پہلے تمام ٹریک سیدھے سیدھے رہے ہیں۔۔یہ مقابلہ جس شہر میں ہونے جا رہا ہے وہ پہاڑی ہونے کی وجہ سے ٹریک میں دو چیزیں تمھارے لئے چیلنج بن سکتی ہیں۔۔Steep turns اور کلائمبس“۔۔ ڈار صاحب منجھے ہوئے کوچ تھے اور مقابلے کے لئے منتخب ٹریک کو دیکھ چکے تھے۔
”میرا خیال ہے کہ یہ کوئی زیادہ بڑا چیلنج نہیں ہیں میرے لئے۔۔لیکن پھر بھی آپ کہتے ہیں تو ٹھیک ہے“۔ دانش مسکریا اور اس مسکراہٹ سے اس کی آنکھوں میں وہ چمک نمایاں ہو گئی جس میں اس کی پچھلی تمام ٹرافیاں اور مقابلوں کے مناظر بھی گھوم گئے۔ اس ملک کے تمام کالجزکے بائیسکل رائیڈرز کو ہرا چکا ہوں۔ آئی ایم ان بیٹ ایبل“ اس نے اپنی سوچ سے محظوظ ہوتے ہوئے سنا ڈار صاحب کہہ رہے تھے۔
”کلائمبس پر اکثر سائیکلسٹ تیز رفتاری سے فاصلہ طے کرنے کی خواہش میں اپنا اسٹیمنا یعنی توانائی کو ضائع کر دیتے ہیں۔ اسے چڑھائی پر بچا کر رکھنا چاہیئے بے شک رفتار اگر دھیمی بھی کرنی پڑے ۔پھر ڈھلوان سے لے کر سیدھے ٹریک پر آنے کے بعد اسی بچائی ہوئی توانائی کو استعمال کرنا چاہیئے‘۔ کوچ ڈار صاحب سائیکلنگ اسپورٹس کی باریکیوں کو جانتے تھے۔
”آل رائیٹ سر آج کے لئے اتنا کافی ہے!“ اس نے منرل واٹر کی بوتل سے کافی سارا پانی حلق میں انڈیلا کچھ مینہ پر گرایا اور کچھ شرارت میں اپنے کوچ پر اچھال دیا۔
”سنبھل کے یار۔۔میں کوچ ہوں تمھارا اور تم سے بڑا بھی“ انہوں نے بناوٹی غصے سے کہا۔
”او کم آن۔۔۔یو نو دیٹ یو آر گونگ می ویری ٹف ٹائم“ دانش نے کہا تو دونوں ہنس پڑے۔

یہ کوئی پہلے بار نہیں تھی کہ وہ سائیکل ریس میں حصہ لے رھا تھا اور نہ ہی ایسا تھا کہ اسے ہار جانے کا ڈر تھا۔جیت کے چبوترے پر سب سے بلند کھڑے ہونے اور ٹرافی کو کاندھوں سے اونچا کر کے دکھانے پر تالیوں کا شور، کیمروں کی روشنیاں اور کلک کلک کی آوازیں۔۔ ہجوم کا ایک دیوانگی کے عالم میں اس کی طرف بھاگنا۔۔۔یہ سب دانش کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا۔ سائیکلنگ ٹریک اس بار بھی اس کے اسٹیمنا کے سامنے کچھ خاص طویل نہیں تھا سو ڈار صاحب کی نصیحتیں اسے زیادہ متاثر نہیں کر سکیں۔
”ایوری تھنگ از گوینگ تو بی آل رائیٹ دانی۔ چئیر اپ“ اسے گہری سوچ میں ڈوبا ہوا پا کر مما اس کی توجہ کسی اور طرف منتقل کرنے لگیں۔
’‘ اچھا ناشتہ کرو چیمپ“ مما کے اسے چیمپ پکارنے پر وہ مسکرا دیا۔
”بیٹا میرا ایک اصول ہے جب بھی کسی مقابلے میں جاﺅ تو کوئی اور سوچ مائینڈ پر نہ لے جاﺅ Just focus on your victory“ پاپا نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔
”مائی سن از آل ٹائم وِنر۔۔آئی نو اٹ“ مامانے اس کا کاندھا تھپتھپایا۔
”جیت کو اعصاب پر سوار کرنے کی ضرورت نہیں۔جیت کبھی کبھی انسان کی ہار ہوتی ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی کبھی انسان ہار کر بھی جیت جاتا ہے“ دادا نے جنہیں پیار سے دانش گرینا کہاکرتا تھا ان کی گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے گہری فلسفیانہ بات کی جو ان کی عادت تھی۔
” آخر اس عمر میں تجربات کا نچوڑ ہی رہ جاتا ہے انسان کے پاس۔،تجربوں کی عمر تو گزر چکی ہوتی ہے ناں“یہ مما کہا کرتی تھیں گریناکی باتوں کے بارے میں“۔
”کوئی ضرورت نہیں ان کے فلسفے پر زیادہ غور کرنے کی دانی“ مما ناشتے کی ٹیبل سے اٹھتے ہوئے بولیں۔ لیکن سچ بات یہ تھی کہ وہ اپنے داداکی باتوں پر غور کرتا تھا۔ پچھلی مرتبہ ٹرافی کو ہاتھ میں اٹھا کر جب اس نے فاتحانہ نظروں سے رنر اپ کی طرف دیکھا تھا جس نے اسے بہت سخت مشکل سے جیتنے دیا تھا تو وہ بہت حیران ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر پھیلے ہوئے اطمینان نے دانش کی جیت کے ستاروں کی روشنی ماند کر دی تھی۔ ۔۔اس کی مسکراہٹ میں اور اسے مبارکباد دینے میں بشاشت کے اظہار میں ایسا تاثر تھا جیسے ریس اس نے جیتی ہے۔حالانکہ ’رنر اَپ“ کے چہرے پر اس کا احساسِ شکست خوردگی صاف لکھا ہوا ہوتا ہے۔
”گُڈ جاب رنر اپ“ اس نے فہد کو اتنا بھی بہت مشکل سے کہا تھا۔۔ جیت کا نشہ کچھ کہنے سننے کا موقع ہی کب دیتا ہے لیکن ایک بات اس کے کانوں میں اب تک گونج رہی تھی۔
”اگلی بار شاید آپ رنر اپ ہوں دانش بھائی اور میں آپ سے یہ سب کہہ رہا ہوں گا“ اس کے اس جملے پر سب کھلکھلا کر ہنس پڑے تھے ۔ کچھ بھی ہو اس کا اخلاق اور اسکی Sportman spirit کو داد دینی پڑے گی ۔ دانش اس سوچ کے ساتھ ہی مسکرا کر اپنے داد دینے والے شائقین کی طرف مڑ گیاتھا۔
”اصل جیت کیا ہوتی ہے گرینا؟ اس نے دادا سے پوچھ ہی لیا شاید
”دیکھو بیٹا اصل جیت وہ ہوتی ہے جو انسان کو اندر تک سرشار کر دے چاہے دنیا اسے جیت کہے یا نہ کہے“، گرینا نے اخبار پر نظریں جما رکھی تھیں۔
”تو میں نے آج تک اپنی محنت سے جو مقابلے جیتے ہیں کیا یہ آپ کی نظر میں جیت نہیں ہیں۔۔ جب کہ میرا نام اب نیشنل لیول پر انہی کامیابیوں کی وجہ سے لیا جانے لگا ہے۔“ دانش بحث کو آگے بڑھانا چاہتا تھا۔
” کامیابیاں یقیناََ ہیں مائی چائلڈ۔ آئی ایم سوری میں تمھیں کنفیوذ کر رہا ہوں۔ جب تم میری عمر کو پہنچو گے تو یہ فلسفہ سمجھو گے ۔ لیکن ایک بات بتاﺅ۔تمھاری ہر وکٹری پر تمھارے فینز، سپورٹرز، گھر والے، دنیا، اخبارارت یہ سب تو خوشی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔کیا کسی جیت پر تمھارے دل نے وہ خوشی منائی ہے کہ جس کے سامنے ہر خوشی ماند پڑ جائے۔ “؟ دانش کے پاس اس کا جواب نہیں تھا اور وہ”او۔کے۔گرینا! آئی ریئلی ھیو ٹو گو‘ کہتے ہوئے موبائل کانوں سے لگا کر ہاتھ ہلا کر دادا کو خدا حافظ کا اشارہ کر کے باہر نکل گیا۔
٭٭٭

”سنا ہے دانش درانی کے کالج کے پرنسپل نے کوئی اچھا کوچ منگایا ہے اور وہ لڑکوں کو ٹریننگ دے رہا ہے‘۔‘ ؟ ابا کو کالج کی خبریں اس سے
 پہلے پہنچ جاتی تھیں اور اس کی وجہ ان کا سوشل نیٹ ورک تھا۔۔ ابا نے میل ملاقات کا سلسلہ محلے کے تمام اہم لوگوں سے رکھا ہوا تھا۔ مگر اماں کہتی تھیں کہ کتابوں کی دکان پر بیٹھ کر سارے اخبار مفت پڑھ آتے ہیں اور گھر آ کر نیوز چینلز کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ انہیں خبریں نہیں معلوم ہونگی تو اور کس کو ہونگی“۔
”ہاں بھئی امیر لوگوں کے لڑکے وہاں پڑھتے ہیں تو یہ سارے چونچلے تو ہونگے“ اماں کا دل پہلے ہی جلا ہوا تھا اپنے بیٹے کو ہرانے والے کو وہ خوب صلواتیں سنا سکتی تھیں۔
” جی ابا۔۔ڈار صاحب بہت منجھے ہوئے کوچ ہیں “ اس کے لہجے میں اداسی تھی جیسے کہہ رہا ہو میں بھی اس کالج میں ہوتا تو جدید ٹیکنیکس پر سیکھ رہا ہوتا وہ بھی ڈار صاحب سے۔
”تمھارے کالج کے پرنسپل کیوں نہیں کسی کو ٹرینر بھرتی کر لیتے؟۔ تم لڑکے بات تو کر سکتے ہو ناں مل کر“۔ ابا کریدنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔
”بات کی تھی لیکن جواب وہی تھا کہ فنڈز نہیں ہیں کہ کوئی ماہر ٹرینر رکھا جائے“۔۔وہ تو بھلا ہو کہ اسکول کے اسپورٹس کے ہی ایک ٹیچر اتنے مہربان تھے کہ اسے اور چند اور لڑکوں کو کسی مقابلے سے پہلے کچھ پرانے مروجہ بنیادی اصولوں پر رہنمائی کر دیتے تھے۔ لیکن ہر اہم مقابلے کے قریب سب لڑکے کسی نہ کسی بہانے سے خود کو الگ کر لیتے تھے۔ یہ صرف فہد امیر ہی تھا جو سیکنڈ ھینڈ ریسنگ بائیسکل پر بھی اپنے جذبے کی شدت سے ”رنر اپ“ کا ٹائیٹل جیت آیا تھا۔ ورنہ جب پچھلی مرتبہ بھی ریفریشر ریہرسل کے لئے ٹیم اکٹھی ہوئی اور نئے نئے ماڈلز کی بائیسکلز اپنے رنگوں اور جاذبیت کے ساتھ ٹریک پر آئیں تو اسے یقین نہیں تھا کہ وہ اپنی سیکنڈ ھینڈ ریسنگ بائیسکل پر ”رنر اپ“ کا ٹائیٹل جیت سکے گا لیکن جذبے کی شدت نے اس سے یہ کام کروا لیا تھا ۔
”ڈار صاحب! کہاں تک پہنچی ہے آپ کی ٹریننگ اب تک“ کالج انتظامی امور ، غیر نصابی سرگرمیوں کے انچارج، اسپورٹس کے انچارج اور پرنسپل صاحب بریفنگ میں شامل تھے ۔بات نہایت سنجیدہ تھی کیونکہ کالج کی عزت کا سوال تھا اور بطور پرنسپل وہ ینگ سایکلسٹ چیمپئین ٹرافی کو اپنے کالج میں آتے دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لئے وہ ا س بارذاتی طور پر اتنی دلچسپی لے رہے تھے۔
”سر چونکہ یہ سنگل ڈے ریس کی طرز پر ایک مناسب حد کی طوالت پر مبنی ٹریک سائیکلنگ ریس ہے تو میں لڑکوں کو زیادہ الجھانا نہیں چاہتا۔ اسٹیمنا اور فٹنیس کے بعد بنیادی اصولوںمیں سے یہاں جو کام آئیں گے ان میں اہم speed, climbs اور Terrain اس کے ساتھ ساتھ ڈرافٹنگ، بریکس، attacking riders technique یہ سب اب تک میں نے کور کر لیا ہے“ ڈار صاحب محنتی کوچ تھے اور ماضی میںعالمی سطح کا سائیکلنگ اسپورٹس کا ماہرانہ تجربہ رکھتے تھے۔
”او۔کے۔۔“ پرنسپل صاحب متاثر ہو کر بولے۔کتنے لڑکے اس قابل ہیں کہ نیشنل لیول کے کالجز کے مقابلے میں جنہیں بالکل تیار سمجھا جائے“۔
”سر سعد عمران کا کلائمب ورک اچھا ہے اس کے ساتھ ساتھ اسے اسپیڈ اور بریکس پر مہارت ہے۔۔ سعید کاشف کے جنرل ٹیکٹکس حیران کن ہیں اور دانش درانی کی ڈھلوان پر رفتار میں قابو اور مقابل کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی پھرتی اس کو آل راﺅنڈر بناتی ہے۔۔لیکن اس ریس میں کلائمبس زیادہ ہیں تو میں دانش کو کلائمبس کی ٹریننگ پر فوکس کئے ہوئے ہوں۔
”آپ کے خیال میں کس لڑکے کو کالج کی نمائیندگی کرنی چاہیئے“۔
”سر سعید کاشف اور دانش درانی دونوں ماہر فائیٹرز ہیں اوروں کی نسبت تو میں تو دونوں کو اس ریس میں بھیجنے کی درخواست کروں گا“َ ڈار صاحب نے مختصر اور نتیجہ خیز بات کرتے ہوئے کہا۔
”سر یہ بھی دیکھیں کہ کبھی بھی سائیکلنگ اسپورٹس میں ٹرافی لایا ہے کالج کے لئے تو دانش درانی ہی لایا ہے“ کالج کے اسپورٹس انچارج چاہتے تھے کہ اس اہم بات کو نظر انداز نہ کیا جائے۔
”جی سر میرے خیال میں بھی دانش درانی سے جیت کی پوری امید کی جا سکتی ہے“ غیر نصابی سرگرمیوں کے انچارج پروفیسر صاحب نے بھی یہی رائے دی تو پرنسپل صاحب نے ڈار صاحب کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
”سر اگر آپ اسے جانبداری نہ سمجھیں تو دانش میں جیتنے کا Potential زیادہ ہے“ ڈار صاحب کی بات پر سب نے اتفاق رائے سے سر ہلایا۔
”او۔کے۔ آپ باقی کی ٹریننگ پوری کریں ڈار صاحب۔۔ ٹرافی ہمارے کالج میں ہی آنی چاہئے۔“ پرنسپل صاحب نے بات ختم کر دی اور ڈار صاحب کمرے سے باہر نکل آئے۔

فہد امیر نے ٹرین سے روانہ ہونا تھا اور جس حساب سے ریل گاڑیاں لیٹ ہو رہی تھیں اس میں ابا کا خیال درست تھا کہ وہ بلائے گئے دنوں سے ایک دن پہلے پہنچے ۔ ریسیپشن پر پہنچ کر رجسٹریشن کروانے کے بعد اسے اس کا کمرہ الاٹ کر دیا گیا۔ کمرہ زیادہ کشادہ اگر نہیں تو تنگ بھی نہیں تھا۔ صاف ستھرے ٹائیلوں والے فرش پر مناسب فاصلے سے دو بیڈز، کچھ فاصلے پر صوفہ اور ٹیبل، دیوار گیرمناسب الماری، اور ایک عدد ٹی۔وی۔ یہ بہت اچھا انتظام تھا۔ شہر کی انتظامیہ کی جانب سے یہ ہاسٹل بلڈنگ خاص طور سے ریس میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کے لئے مخصوص کی گئی تھی۔ وہ نہا کر تازہ دم ہونے کے بعد بلڈنگ کا راوئنڈ بھی لے آیا تھا اور اس ٹریک کا بھی جس پر دو دن بعد ریس ہونے جا رہی تھی۔ شہر کے اس حصے کی رونق بڑھنی شروع ہو چکی تھی اور بلڈنگ میں تو خوب گہما گہمی تھی۔ کافی کالجز کے لڑکے پہنچ چکے تھے اور آنے والے لڑکے سب ایک دوسرے سے گھل مل چکے تھے۔ ابتدائی بریفنگ سیشنز اور فٹنیس پریکٹس بھی شروع ہو چکی تھی۔ آج دوپہر کے کھانے کے بعد میدان میں ایک چھوٹی سی تقریب تھی جس میں کمپنی اور میزبان کالج کی انتظامیہ کی جانب سے ریسنگ بائیسکلزدی جانی تھیں۔ فہد امیر کو اپنی جدید ریسنگ بائیسکل پا کر بہت عجیب سی خوشی محسوس ہو رہی تھی۔ تقریب کے اختتام پر انہیں ٹریک پر ٹیم کی صورت جانے کی اجازت مل چکی تھی کہ وہ پریکٹس کے مرحلوں سے گزر لیں۔ ریس کورس کا ایک چکر لگا کر جب فہد امیر کمرے میں آیا تو کمرے میں ایک مہمان موجود تھا اس کا ساتھی اسپوڑٹس کولیگ بستر پر نیم دراز اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا۔
”نائس ٹُو میٹ یو ”رنر اپ“ اس نے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔
”سیم ھیئر ۔۔۔دانش بھائی“ اس نے جواباََ ہاتھ ملاتے ہوئے اسے Champنہیں کہا۔


نیلا آسمان اور سنہرا چمکتا ہوا سورج شہر کے سبز منظروں کی خوبصورتی کو اور بھی نمایاں کر رہا تھا۔ پنڈال میں شائقین اور معزز مہمانوں کے لئے کرسیاں لگ چکی تھیں۔ یہ پنڈال ریہڈرز کی جیت کی ٹارغیٹ لائین کے کچھ فاصلے پر سجایا گیا تھا اور اس کے بالکل سامنے وہ ڈائس جس پر مہمانانِ خصوصی کی نشستیں اور قریب ہی جیتنے والوں کا وکٹری اسٹینڈ۔ اس سے تھوڑا سا اوپر کیمنٹیٹرز باکس اور کیمرہ کوریج کی جگہیں بھی مخصوص کر دی گئی تھیں۔ شہر کے ایک لمبے علاقے سے گزر کر آنے والے ریس کے ٹریک پر مناسب فاصلے پر سرخ جھنڈوں اور تیر کے نشان سے راستے کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ فرسٹ ایڈ کے انتظامات کے ساتھ ایک وین کو بھی رائیڈرز کے بالکل پیچھے روانہ کرنے کا انتظام کر دیا گیا تھا۔۔ فہد امیر کے ساتھ ساتھ باقی تما م رائیڈرز اپنی اپنی کٹ اور ہیلمیٹس میں نقطہ ¾ آغاز تک آ چکے تھے۔ اپنی اپنی اسپورٹس شرت کے پیچھے درج نمبروں سے پہچانے جا رہے تھے لیکن ہر کالج کے اسپورٹرز کو علم تھا کہ ان کا کھلاڑی کا نمبر کیا ہے۔ جبھی شائقین میں نمبرس کے پلے کارڈز لہرا رہے تھے۔ ہجوم کے درمیاں نوجوان نسل نے دانش درانی کے پوسٹرز بھی اٹھا رکھے تھے لیکن فہد امیر کو اس بات کی توقع نہیں تھی کہ اس کی تصویروں کے کارڈز بھی بڑی تعداد میں موجود تھے اور جہاں دانش ۔۔۔دانش دانش۔۔کی آوازوں میں شور اٹھتا تھا وہیں ایک بڑے حصے سے فہد۔۔فہد۔۔فہد کی آوازیں بھی اس شور میں شامل تھیں۔۔ فہد کے چہرے پر خوشی کی سرخی دوڑ گئی۔
اس کے دائیں ہاتھ سے دانش درانی نے ہجوم کی طرف ہاتھ لہرایا اور پھر مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور بولا ”ریڈی رنر اپ؟“ گویا وہ جیت کی ٹھان چکا تھا۔۔
ہجوم جوش کے مارے بے قابو ہوا جا رہا تھا۔ وکٹری ٹارگیٹ فلیگ لائین سے وہ کچھ فاصلے پر تھا رائیڈر نمبر 7 ہجوم کا من چاہا ہیرو یعنی دانش اور اس سے تھوڑے سے فاصلے پر تیزی سے آگے بڑھتا ہوا نمبر 14۔وہ بائیسکل پر جھکا ہوا تھا اور اس کے پاﺅں پیڈلز پر یوں حرکت کر رہے تھے گویا سائیکل نہیں جہاز ہے جسے رن وے پر ٹیکسنگ کے بعد فضا میں بلند ہو جانا ہے۔ سبز اسپورٹس شرٹ پسینے میں شرابور اور دھوپ سے اس کا چہرہ سرخ تانبے کی طرح دہک رہا تھا۔ حاضرین میں زیادہ تعداد دانش۔۔۔دانش کے نعرے لگا رہی تھی۔

ناظرین یہ ٹارگٹ کے انتہائی قریب بالکل قریب پہنچنے والا رائیڈر نمبر ۷ سینٹ جوزف کالج آف ماڈرن ایجوکیشن کا دانش درانی اور اس کے بالکل پیچھے نمبر ۴۱ اقبال کالج نصیر آباد کا فہد امیر ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس اسپورٹس مقابلے میں ایک دوسرے کو مات دینے کی کوشش میں مصروف دانش درانی اور فہد امیر بہت تیزی سے آگے بڑح رہے ہیں“ بڑی گونجدار لاﺅڈ اسپیکر پر گراﺅنڈ کیمینیٹری جاری تھی۔ دانش درانی نے اپنی بائیک فل اسپیڈ پر لا کر بالکل یوں چھوڑ دی تھی کہ وہ ہوا میں تیرتی محسوس ہو رہی تھی ۔۔وہ فہد امیر کا سوچ کر مسکرایا اور اسی لمحے کے ہزارویں حصے میں اس کا بائیک ھینڈل نیم دائرے میں داہنی طرف یوں گھوما کہ اس نے فُل ایمرجینسی بریکس پر پاﺅں رکھ کر خود کو گرنے سے بمشکل روکا اور اسی لمحے میں فہد امیر کے لئے جیت کے گھڑیال نے گھنٹی بجا دی۔” جوش کے مارے کمینٹیٹر کی آواز لرز رہی تھی” اور فلیےگ لائین پر سے کراس کرتے ہوئے آج کی آل پاکستان نیشنل سائیکل ریس کا چیمپئین فہد امیر ہے۔ ہجوم فہد۔۔۔فہد ۔۔۔فہد کے نعروں سے گونج اُٹھا۔ وکٹری اسٹینڈ پر پہلے نمبر پر کھڑے ہو کر ٹرافی کو دونوں ہاتھوں سے کاندھے پر اونچا کئے فہد امیر نے آج خود پر سے ”رنر اپ“ کی دھول جھاڑ کر ”اپنے ساتھی کی طرف دیکھا جس نے کبھی رنر اپ ہونا سیکھا ہی نہیں تھا لیکن آج حیرت کی باری فہد امیر کی تھی ”آج جب دانش درانی اسے”گُڈ جاب یو چیمپ“ کہہ رہا تھا تو اس کی آنکھوں میں ہارنے کا غم و غصہ نہیں تھابلکہ اصل جیت کی سرشاری تھی۔ پتہ نہیں دانش درانی کس بات پر خوش تھا فہد نے سوچا۔ فہد کو کیمروں کی کلک کلک اور چینلز نے گھیر لیا۔
ہجوم میں سے گرینااسے سب سے پہلے گلے لگانے آئے۔
”گرینا میں نے ٹھیک کیا ناں!۔۔رات میں نے اسے کسی ساتھی سے یہ بات کہتے سن لیا تھا کہ دانش درانی کے پاپا نے بائسکل اسپانسرز کی ہیں تو پھر جیت بھی دانش درانی کی ہو گی۔ اور میں اپنی وکٹری پر یہ الزام ضمیر پر نہیں جھیل سکتا تھا۔
”یس سنی ۔۔تم نے ٹھیک کیا لیکن کیا تم ٹھیک ہو“؟
”اوہ گرینا آئی فیل لائک اے رئیل چیمپئین ٹُوڈے“ آج میرا دل اپنی جیت کی خوشی منا رہا ہے۔۔وہ جسے آپ کہتے تھے ۔گرینانے اس کے کاندھے پر بازو رکھ دیئے اور دونوں نے ایک ساتھ کہا ”اصل جیت“۔